Thursday, December 26, 2024
ہومPakistanشرح سود میں مسلسل کمی؛ عام پاکستانی کی زندگی پر کیا اثر...

شرح سود میں مسلسل کمی؛ عام پاکستانی کی زندگی پر کیا اثر پڑے گا؟


پاکستان میں نئی شرح سود 17.50 فی صد ہو گئی ہے۔

ماہرین معیشت شرح سود کو اب بھی زیادہ قرار دیتے ہیں۔

جب شرح سود کم ہوتی ہے تو تاجروں، صنعت کاروں اور دیگر کو حکومت سے قرض لینے میں کسی قدر آسانی ہوتی ہے: ماہر معاشیات سلمان نقوی

پاکستان کے مرکزی بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی نے جمعرات کو ملک میں شرح سود میں مزید دو فی صد یعنی 200 بیسز پوائنٹس کی کمی کا اعلان کیا ہے۔

اس فیصلے کے بعد ملک میں نئی شرح سود 17.50 فی صد ہو گئی ہے۔

ماہرین معیشت شرح سود کو اب بھی زیادہ قرار دیتے ہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ مہنگائی کی سطح میں کمی آنے کے ساتھ امید ہے کہ اس میں مزید کمی آئے گی۔ لیکن اس کے باوجود معیشت کو درپیش خطرات برقرار ہیں جس سے غیر یقینی کی علامات برقرار رہیں گی۔

یہاں سوال یہ بھی پیدا ہو رہا ہے کہ شرح سود میں کمی سے کیا معیشت میں بہتری اور سب سے بڑھ کر عام آدمی کی معاشی بہتری کی کوئی امید ہے یا نہیں۔

ماہر معاشیات سلمان نقوی کا کہنا ہے کہ عام آدمی کو اس سے کوئی براہ راست فائدہ تو نہیں ہو گا۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ جب شرح سود کم ہوتی ہے تو تاجروں، صنعت کاروں اور دیگر کو حکومت سے قرض لینے میں کسی قدر آسانی ہوتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت ملک میں بڑے بڑے سرمایہ دار اس بات کو ترجیح دے رہے ہیں کہ بہتر منافع کے حصول کے لیے وہ اپنی رقوم کسی بڑے منصوبے پر خرچ کرنے کے بجائے بینکوں میں رکھیں۔ تاکہ اس سے بہتر منافع کا حصول ممکن ہو سکے۔

لیکن شرح سود میں کمی لانے سے یہ پیسہ پھر سے مارکیٹ میں آئے گا اور کاروبار میں لگنے سے اس سے معاشی سرگرمیوں میں تیزی دیکھنے کو ملتی ہے۔

سلمان نقوی کے مطابق ملک میں نئی تعین کردہ شرح سود اب بھی بے حد زیادہ ہے اور اسے کاروبار کرنے کے لیے کسی صورت موزوں قرار نہیں دیا جا سکتا۔

‘مہنگائی میں کمی کے باعث شرح سود میں کمی واقع ہوئی’

ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ ملک میں مہنگائی کی شرح میں مسلسل کمی دیکھنے میں آ رہی ہے اور اسی کمی کی بدولت مانیٹری پالیسی کمیٹی کو شرح سود کم کرنے کا موقع مل سکا۔

خیال رہے کہ پاکستان میں اگست کے اختتام پر سامنے آنے والے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں مہنگائی کی شرح 34 ماہ کی کم ترین سطح پر آئی ہے اور یہ سنگل ڈیجٹ پر پہنچی ہے۔

کیا مہنگائی میں کمی حکومتی اقدامات بنے؟

ایک جانب حکومت اسے اپنی معاشی ٹیم کی بڑی کامیابی سے تعبیر کرتی ہے اور اسے ملک کو دوبارہ سے معاشی استحکام اور ترقی سے تعبیر کر رہی ہے۔

لیکن دوسری جانب اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی نے واضح کیا ہے کہ مہنگائی میں کمی کا بنیادی سبب توانائی کی مقررہ قیمتوں میں طے شدہ اضافے پر عمل درآمد میں تاخیر اور عالمی منڈیوں میں تیل اور غذائی اشیا کی قیمتوں میں کمی رہی۔

اس ضمن میں داخلی غیر یقینی حالات کو بھی پسِ پشت نہیں ڈالا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ مہنگائی میں مسلسل اور توقع سے زیادہ کمی کے باوجود مانیٹری پالیسی کمیٹی نے محتاط زری پالیسی اختیار کرنے پر اکتفا کیا ہے۔

کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے قائم مقام صدر الطاف اے غفار کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ مہنگائی میں کمی آئی ہے۔

لیکن پاکستان کے معاملے میں یہ اسٹیٹ بینک کی سخت مانیٹری پالیسی کے مؤقف کی وجہ سے نہیں بلکہ حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے بعض انتظامی اقدامات کے ساتھ ساتھ زرعی پیداوار میں بہتری کی وجہ سے ممکن ہوئی ہے۔

اُن کے بقول روپے کی قدر میں استحکام بھی مہنگائی کو کم کرنے کی ایک بڑی وجہ ہے کیوں کہ در حقیقت پاکستان میں بھاری مقدار میں اجناس باقاعدگی سے درآمد کی جاتی ہیں اس لیے روپے کی قدر میں استحکام براہ راست مہنگائی کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔

ادھر مانیٹری پالیسی کے اعلامیے کے مطابق تیل کی عالمی قیمتیں تیزی سے کم ہونے کے ساتھ زرِمبادلہ رقوم کی کم آمد اور مسلسل قرضے کی واپسی کے باوجود اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر تقریباً 9.5 ارب ڈالرز پر مستحکم ہیں۔

تازہ ترین پلس سرویز کے مطابق مہنگائی کی توقعات اور کاروباری اداروں کے اعتماد میں بہتری آئی ہے جب کہ دوسری جانب جولائی اور اگست کے دوران ایف بی آر کی ٹیکس وصولی ہدف سے کم رہی۔

تجارتی خسارہ قابو میں لیکن معاشی ترقی کی رفتار ساڑھے تین فی صد سے بھی کم رہنے کا امکان

کمیٹی کا کہنا ہے کہ مہنگائی کے دباؤ میں مسلسل کمی اور پالیسی ریٹ میں حالیہ کٹوتیوں کے ظاہر ہوتے ہوئے اثرات سے صنعت اور خدمات کے شعبوں میں نمو کے امکانات کو تقویت ملے گی۔

مجموعی طور پر حقیقی جی ڈی پی کا منظر نامہ رواں مالی سال کے لیے کمیٹی کے تخمینے سے ہم آہنگ نظر آتا ہے۔

خیال رہے کہ مانیٹری پالیسی کمیٹی نے توقع ظاہر کی تھی کہ اس سال ملک میں معاشی ترقی کی رفتار ڈھائی سے ساڑھے تین فی صد رہنے کا امکان ہے۔

ادھر رواں مالی سال کے پہلے ماہ یعنی جولائی میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلات زر کی بلند آمد اور برآمدی آمدنی میں نمایاں بہتری نے درآمدات میں اضافے کے اثر کو کسی حد تک زائل کیا اور جاری کھاتے کے خسارے کو 20 کروڑ ڈالر تک محدود رکھنے میں مدد دی۔

کمیٹی کے مطابق کارکنوں کی ترسیلات زر کا یہ مضبوط رجحان اگست میں بھی جاری رہا۔ جب کہ عالمی معاشی ماحول بھی سازگار نظر آیا جو خام تیل کی قیمتوں میں خاصی کمی اور عالمی مالی حالات میں قدرے بہتری سے ظاہر ہوتا ہے۔

کمیٹی نے توقع کا اظہار کیا ہے کہ آگے چل کر ملکی معاشی بحالی کے مطابق درآمدی حجم میں اضافے ہو سکتا ہے۔ تاہم توقع ہے کہ ملک کے تناسب تجارت میں بہتری، جس کا بڑا سبب کم ہوتی ہوئی خام تیل کی قیمتیں ہیں کے نتیجے میں رواں مالی سال میں مجموعی تجارتی خسارہ قابو میں رہے گا۔

نیز یہ بھی توقع ہے کہ برآمدی آمدنی بھی مستحکم رہے گی کیوں کہ ہائی ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل مصنوعات میں نمو چاول کی برآمدات میں متوقع کمی کی تلافی کردے گی۔

مانیٹری پالیسی کمیٹی کا کہنا تھا کہ کارکنوں کی مضبوط ترسیلات زر کے ہمراہ ان عوامل کی بنا پر توقع ہے کہ جاری کھاتے کا خسارہ رواں مالی سال میں جی ڈی پی کے ایک فی صد کی تخمینہ شدہ حدود کے اندر ہی رہے گا۔ اس محدود جاری کھاتے کے خسارے اور اس کے ہمراہ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت مجوزہ رقوم کی آمد سے اسٹیٹ بینک کے زرِمبادلہ کے ذخائر کو مزید بڑھانے میں مدد ملے گی۔

شرح سود میں دو فی صد کمی کا اعلان ناکافی قرار

کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے قائم مقام صدر الطاف اے غفار نے اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں دو فی صد کمی کے اعلان کو ناکافی قرار دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ شرح سود میں پانچ فی صد کمی کی توقع تھی لیکن اس میں صرف دو فی صد تک کمی کی گئی ہے جو نہ تو کافی ہے اور نہ ہی مہنگائی کے گرتے ہوئے رجحان کے مطابق ہے۔

الطاف اے غفار کا کہنا تھا کہ ملک میں شرح سود اب بھی بہت زیادہ ہے لہٰذا اسے زیادہ جارحانہ انداز میں کم کرنا چاہیے تاکہ اسے فوری طور پر سنگل ڈیجٹ پر لاتے ہوئے سات سے آٹھ فی صد کے درمیان کردیا جائے جو خطے اور دنیا کے دیگر ممالک کے برابر ہے۔

انہوں نے کہا کہ تاجر برادری سود کی شرح کو سنگل ڈیجٹ پر دیکھنا چاہتی ہے جس سے یقینی طور پر قرضے لینے کی حوصلہ افزائی ہو گی اور کاروباری لاگت میں کمی کی وجہ سے توسیع کو فروغ ملے گا۔

تاجروں کی نمائندہ تنظیموں کا کہنا ہے کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے سخت مانیٹری پالیسی مؤقف کی وجہ سے قرضے غیر معمولی مہنگے ہوئے جس کے باعث معیشت کو بہت زیادہ نقصان پہنچا۔ خاص طور پر کاروباری لاگت میں اضافہ ہوا جس نے مینوفیکچرنگ سیکٹر کو بری طرح مشکلات سے دوچار کردیا ہے اس لیے مہنگائی کی شرح میں خاطر خواہ کمی کی صورت میں ریلیف ناگزیر ہو گیا ہے۔



Source

RELATED ARTICLES

اپنی رائے کا اظہار کریں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

مقبول خبریں