|
اسلام آباد — پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف کے حالیہ دورۂ چین کو حکومت کی جانب سے کامیاب قرار دیا جا رہا ہے۔ تاہم بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ دورے کے دوران پاکستان میں چینی شہریوں کی سیکیورٹی کے معاملے پر بھی کھل کر بات ہوئی ہے۔
دورے کے دوران سی پیک منصوبوں کو آگے بڑھانے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ تاہم چین کے صدر شی جن پنگ نے کہا ہے کہ اُنہیں اُمید ہے کہ پاکستان ایک محفوظ، مستحکم اور موزوں بزنس ماحول بنائے گا جس میں چینی اہل کاروں اور منصوبوں پر کام کرنے والے افراد کو تحفظ ملے۔
وزیرِ اعظم آفس کے جاری اعلامیے کے مطابق حالیہ دورۂ چین کے دوران پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک کے تحت جاری بڑے منصوبوں کی بروقت تکمیل، سی پیک کی اپ گریڈیشن اور دوسرے مرحلے میں سی پیک کے تحت ترقیاتی منصوبے آگے بڑھانے پر اتفاقِ رائے ہوا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں سی پیک منصوبوں پر کام کرنے والے چینی شہریوں اور چینی مفادات پر حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
ایسا تازہ ترین واقعہ مارچ میں ایک خودکش بم دھماکے میں پانچ چینی انجینئروں کی ہلاکت کا تھا۔ یہ انجینئر ضلع بشام میں داسو ہائیڈرو پاور منصوبے پر کام کر رہے تھے۔
چینی انجینئرز پر مارچ میں ہونے والے خودکش حملے کے بعد بیجنگ نے داسو دیامر بھاشا اور تربیلا پانچویں توسیعی پن بجلی منصوبوں پر کام عارضی طور معطل کر دیا تھا۔
وزیرِ اعظم کے دورۂ چین کے احتتام پر جاری مشترکہ اعلامیے میں 26 مارچ کو پاکستان میں داسو ہائیڈرو پروجیکٹ پر کام کرنے والے چینی انجینئرز کے قافلے پر دہشت گردی کے حملے کی بھی شدید مذمت کی گئی تھی۔ اس بات پر زور دیا گیا کہ پاکستان اور چین کی دوستی کو کمزور کرنے کی کسی بھی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔
‘سیکیورٹی سے متعلق چین کے تحفظات ہیں’
سینیٹر مشاہد حسین سید کہتے ہیں کہ چین کے سیکیورٹی کے بارے میں تحفظات ہیں جن کا وہ اظہار بھی کرتے رہے ہیں اور صدر شی نے وزیرِ اعظم شہباز شریف سے ملاقات میں بھی اس کا ذکر کیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ آرمی چیف سید عاصم منیر کی صدر شی کے ساتھ وزیر اعظم کی ہونے والی ملاقات میں موجودگی اس ضمن میں بہت مثبت پیغام ہے۔
ان کے بقول چینی صدر سے ملاقات میں آرمی چیف کا وزیرِ اعظم کے ہمراہ ہونا یہ واضع پیغام ہے کہ مسلح افواج چینی منصوبوں کی محافظ ہیں اور ملک میں چینی سرمایہ کاری کی اہمیت کو سمجھتی ہے۔
مشاہد حسین سید کے بقول دونوں ممالک جانتے ہیں کہ پاکستان میں چینی شہریوں اور منصوبوں پر حملوں میں بیرونی عناصر ملوث ہیں۔ تاہم پاکستان اور چین کی قیادت نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ اس قسم کی دہشت گردی ناقابلِ برداشت ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان میں گزشتہ پانچ سال میں چین کے چھ منصوبوں پر حملے ہوئے ہیں جن میں 17 چینی شہری ہلاک ہوئے۔
‘دونوں ملکوں کو سیکیورٹی سے متعلق معاملات کا ادارک ہے’
چین میں پاکستان کے سابق سفیر مسعود خالد کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کی قیادت یہ سمجھتی ہے کہ چینی منصوبوں اور شہریوں پر دہشت گردی کے حملے دو طرفہ تعلقات کو سبوتاژ کرنے کی کوشش ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان نے چینی شہریوں اور منصوبوں کے تحفظ کی یقین دہانی کروائی ہے اور چینی قیادت کو اعتماد میں لیا ہے کہ سیکیورٹی یقینی بنانے کے لیے مزید اقدامات لیے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ چینی کمپنیوں کی ادائیگیوں کو بہتر بنانے کی بھی کوشش کی جا رہی ہے اور چین کی بجلی کمپنیوں کی ادائیگی کے لیے حکومت نے 70 ارب روپے مختص کیے ہیں۔
مسعود خالد کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ چین اور پاکستان کے تعلقات آگے بڑھیں گے اور وزیرِ اعظم کے دورے کے بعد جاری مشترکہ بیان میں بھی اس بات وضاحت کی گئی ہے۔
چین سے بڑھتے تعلقات اور امریکی تحفظات
وزیرِ اعظم شہباز شریف نے چین کا دورہ ایسے وقت میں کیا ہے جب پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ نئے معاہدے کا خواہش مند ہے اور امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات میں تناؤ بڑھ رہا ہے۔
امریکہ نے پاکستان کو سی پیک منصوبوں کے حوالے سے بھی خبردار کرتا رہا ہے کہ اس سے چین کو تو فائدہ پہنچے گا۔ لیکن اس سے پاکستان کو طویل المدتی معاشی نقصان ہو سکتا ہے۔
مشاہد حسین سید کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف پاکستان کو معاشی بحران کو حل کرنے میں فائر بریگیڈ کی طرح مدد فراہم کرتا ہے جب کہ چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات طویل مدتی اور اسٹریٹجک نوعیت کے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ نے ساٹھ کی دہائی میں بھی پاکستان کے چین کے ساتھ تعلقات کی مخالفت کی تھی۔ لیکن اسلام آباد نے واشنگٹن کے تحفظات کو نظر انداز کرتے ہوئے بیجنگ سے تعلقات استوار کیے۔
وہ کہتے ہیں کہ پاکستان قومی مفادات پر بیرونی دباؤ قبول نہیں کرے گا اور وسیع تر مفاد میں چین کے ساتھ تعلقات کو بڑھایا جائے گا۔
یاد رہے کہ پاکستان کے چین کے ساتھ بڑھتے اقتصادی و دفاعی تعلقات پر امریکہ خدشات کا اظہار کرتا رہا ہے۔
خالد مسعود کہتے ہیں کہ پاکستان کی پالیسی واضح ہے کہ چین اور امریکہ دونوں سے دو طرفہ تعلقات کو ساتھ ساتھ لے کر چلنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مغرب اور نیٹو ممالک خود چین سے تعلقات استوار کیے ہوئے ہیں جس کی مثال جرمن چانسلر اور فرانسیسی صدر کی چینی صدر سے حالیہ ملاقاتیں ہیں۔
سی پیک فیز ٹو
پاکستان اور چین نے سی پیک کے تحت جاری بڑے منصوبوں کی بروقت تکمیل، سی پیک کی اپ گریڈیشن اور دوسرے مرحلے میں سی پیک کے تحت ترقیاتی منصوبے آگے بڑھانے پر بھی اتفاق کیا ہے۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف کے اس دورے کے دوران قراقرم ہائی وے، ایم ایل ون، خنجراب پاس، گودار پورٹ منصوبوں اور زراعت، انفراسٹرکچر اور صنعتی تعاون سمیت مختلف شعبوں میں 23 معاہدوں اور یادداشتوں پر دستخط کیے گئے ہیں۔
سن 2014 میں شروع ہونے والے مجموعی طور پر 65 ارب ڈالر مالیت کے سی پیک منصوبے کے تحت چین نے پاکستان میں بجلی کے مختلف منصوبوں اور سڑکوں کے نیٹ ورکس میں بھی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ لیکن حالیہ مہینوں میں مختلف منصوبوں پر عمل درآمد میں سست روی کی شکایات ہیں۔