|
اسلام آباد — پاکستانی وزارتِ داخلہ کے ایک اعلٰی سطحی وفد نے جمعرات کو کابل میں افغانستان میں طالبان حکومت کے اعلٰی حکام سے ملاقاتیں کی ہیں۔
پاکستانی دفترِ خارجہ کے مطابق ملاقات میں پاکستان میں چینی شہریوں اور تنصیبات پر بڑھتے ہوئے حملوں اور انسدادِ دہشت گردی سے متعلق دیگر اُمور پر بات چیت ہوئی ہے۔
پاکستانی اعلیٰ سطحی وفد کا یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف چار جون کو چین کے چار روزہ سرکاری دورے پر روانہ ہو رہے ہیں۔ اس سے قبل بشام حملے میں مارے جانے والے چینی انجینئرز کے لواحقین کے لیے 25 لاکھ ڈالر کے معاوضے کا بھی اعلان ہو چکا ہے۔
واضح رہے کہ 26 مارچ کو داسو ڈیم پر کام کرنے والے چینی انجینئرز کے قافلے کو بشام میں نشانہ بنایا گیا تھا۔ واقعے میں پانچ چینی انجینئرز ہلاک ہو گئے تھے۔
گزشتہ ہفتے پاکستانی وزیرِ داخلہ نے ایک پریس کانفرنس میں الزام عائد کیا تھا کہ چینی شہریوں پر حملے کا سارا منصوبہ افغانستان میں بنایا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بات کے ناقابلِ تردید تمام شواہد موجود ہیں کہ بشام حملے کے لیے افغان سرزمین استعمال ہوئی۔
افغانستان میں طالبان حکومت ان الزامات کو مسترد کرتی رہی ہے۔
طالبان حکام کے مطابق جمعرات کو کابل میں ہونے والی ملاقات میں طالبان حکومت کے نائب وزیرِ داخلہ محمد نبی عمری اور ان کے پاکستانی ہم منصب محمد خرم آغا نے اپنے اپنے وفود کی قیادت کی۔
دورے کے بعد پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ بات چیت 26 مارچ کو چینی شہریوں کے خلاف ہونے والے “دہشت گردانہ حملے” پر مرکوز تھی۔
بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ طالبان حکومت کے نمائندے نے پاکستان سمیت دیگر ممالک کے خلاف کسی بھی دہشت گردی کی کارروائی کے لیے اپنی سرزمین کے استعمال کو روکنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔
طالبان کی وزارتِ داخلہ کے ترجمان عبدالمتین قانی نے دونوں ممالک کے درمیان جمعرات کی ملاقات کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ خرم آغا نے اس سال 26 مارچ کو ہونے والے حملے کے بارے میں بات کی اور سیکیورٹی کے شعبے میں افغان حکومت کی مدد کی امید ظاہر کی۔
طالبان وزارتِ داخلہ کے مطابق افغان نائب وزیر داخلہ عمری نے چینی شہریوں پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے کو ایک المناک واقعہ قرار دیا۔ نائب وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ ہمارے ارادے اور اقدامات اپنے اور سب کے فائدے کے لیے ہیں جس کا مقصد امن کو فروغ دینا ہے۔
محمد نبی عمری نے افغانستان کے اس عزم کی تجدید کی کہ دوسروں کو اپنی سرزمین کسی کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور ہم دوسروں سے بھی یہی چاہتے ہیں۔
پاکستان ماضی میں پاکستان میں ہونے والی حملوں کا الزام افغان سرزمین پر موجود کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے عسکریت پسندوں پر عائد کرتا آیا ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ افغان سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے یہ دہشت گرد پاکستان میں کارروائیاں کر رہے ہیں جن میں بڑے پیمانے پاکستان کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔
جمعرات کو پاکستان فوج کی فارمیشن کمانڈر کانفرنس میں مبینہ طور پر افغانستان کی جانب سے سرحد پار سے مسلسل خلاف ورزیوں اور افغان سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے دہشت گردی کی منصوبہ بندی پر شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
‘معاملات بات چیت کے ذریعے ہی حل ہونے چاہئیں’
سابق سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری کہتے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان بات چیت ہی سب سے اچھا راستہ ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ افغانستان کے ساتھ مختلف چینلز کے ذریعے بات چیت کا عمل جاری رہنا چاہیے اور طاقت کے استعمال کے بجائے مفاہمت سے ہی سارے معاملات حل کرنے چاہئیں۔
اُن کے بقول چینی شہریوں پر حملوں کے بعد طالبان حکومت دہشت گردوں کے خلاف مؤثر کارروائی کر سکتی ہے کیوں کہ چین بھی ایسا ہی چاہتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ پاکستان سی پیک میں توسیع کر کے افغانستان کو شامل کرنا چاہتا ہے ایسے میں افغان حکومت کے لیے اہم ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کو ان حملوں سے مکمل طور پر روکے اور اپنی سرزمین کو ایسے حملوں کے لیے استعمال نہ ہونے دے۔
تجزیہ کار ڈاکٹر قمر چیمہ کہتے ہیں کہ یہ دورہ وزیرِ اعظم شہباز شریف کے دورۂ چین کی تیاریوں کی ہی کڑی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ حالیہ عرصے میں وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے جب چین کا دورہ کیا تو ان کی تمام تر ملاقاتوں کا محور انسدادِ دہشت گردی ہی تھا۔ چینی حکام پاکستان میں چینی انجینئرز پر ہونے والے حملوں پر شدید تحفظات رکھتے ہیں اور اسی وجہ سے وزیرِ اعظم کے دورۂ چین سے قبل اس بارے میں اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
قمر چیمہ نے دعویٰ کیا کہ پاکستان نے اس حوالے سے تحقیقات مکمل کر لی ہیں اور اس میں افغان سرزمین کا استعمال کیا جانا ثابت ہوا ہے۔ پاکستان کے وزیرِ اعظم ان تمام تر تحقیقات کو چینی حکام کے ساتھ شئیر کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان جب جب سی پیک ٹو اور ایم ایل ون سمیت دیگر منصوبوں کے بارے میں بات کرتا ہے تو چینی حکام کی طرف سے ان معاملات میں سیکیورٹی کا معاملہ سامنے آتا ہے۔
اُن کے بقول پاکستان چاہتا ہے کہ چینی حکومت بھی اس میں اپنا کردار ادا کرے کیوں کہ چین نے افغان سفیر کی سفارتی دساویزات قبول کر کے ایک طرح سے افغان عبوری حکومت کو تسلیم کر لیا ہے۔
ایسے میں پاکستان چاہتا ہے کہ وہ بلوچستان میں موجود عسکریت پسندوں کے ساتھ نمٹ لے گا۔ لیکن افغانستان سے حملہ کرنے والے عسکریت پسندوں کے حوالے سے چین اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے اور ان حملوں کو روکنے کے لیے طالبان حکومت پر دباؤ ڈالے۔