|
کراچی — صدرِ پاکستان کی جانب سے پاکستان کے بجٹ کی منظوری دے دی گئی ہے۔ تاہم اب بھی ماہرین حکومتی اخراجات کم نہ کرنے اور عوام پر ٹیکسز کا بوجھ ڈالنے پر تنقید کر رہے ہیں۔
گزشتہ ہفتے قومی اسمبلی سے بھاری ٹیکسز کے ساتھ وفاقی بجٹ کی منظوری اور صدرِ مملکت کی جانب سے فنانس بل 2025 پر دستخط کیے جانے کے بعد ایکٹ پیر سے نافذالعمل ہو گیا ہے۔
بہت سے ماہرین اور تجزیہ کار اخراجات میں اصلاحات یعنی کٹوتیوں کو متعارف نہ کرانے پر حکومت پر سخت تنقید کر رہے ہیں۔
بعض ماہرین یہ سوال کرتے نظر آ رہے ہیں کہ مشکل معاشی صورتِ حال کے پیشِ نظر اگر ملازمین اور عام آدمی پر ٹیکسز کا بوجھ ڈالا گیا ہے تو پھر پارلیمان کے بجٹ میں کٹوتی کے بجائے اسے کیوں بڑھا دیا گیا؟
ایسے میں ملک کے تمام ہی اہم آئینی اداروں کے بجٹ میں 62 فی صد تک بڑا اضافہ دیکھا گیا ہے۔
ان میں ایوانِ صدر، وزیرِ اعظم ہاؤس، الیکشن کمیشن، سپریم کورٹ، اسلام آباد ہائی کورٹ، قومی اسمبلی، سینیٹ، کابینہ، کابینہ ڈویژن، نیشنل اکاؤنٹیبیلیٹی بیورو (نیب) اور دیگر آئینی ادارے شامل ہیں۔
یہی نہیں بلکہ دیگر اہم اداروں جیسا کہ بورڈ آف انویسٹمنٹ، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن، وزیرِ اعظم انسپیکشن کمیشن، فیڈرل پبلک سروس کمیشن، سول سروسز اکیڈمی، نیشنل سیکیورٹی ڈویژن، وزارتِ داخلہ، نیشنل کاونٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا)، پاکستان پوسٹ آفس اور وفاقی حکومت کے دیگر اداروں کے بھی بجٹ میں اضافہ کیا گیا ہے۔
وفاقی حکومت کے تحت کنٹونمنٹس اور گیریژن میں چلنے والے تعلیمی اداروں کے لیے اس بار دو ارب روپے سے زائد یعنی 14 ارب 31 کروڑ روپے کی خطیر رقم رکھی گئی ہے۔
لیکن ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا بجٹ کم و بیش گزشتہ سال جیسا ہی رکھا گیا ہے اور اس بار بھی وہ 66 ارب 33 کروڑ روپے کا ہے۔ حالاں کہ اٹھارویں ترمیم کی منظوری کے بعد تعلیم کا شعبہ صوبائی حکومتوں کو منتقل کیا جا چکا ہے۔
‘ٹیکس دہندگان کی قیمت پر اشرافیہ کا تحفظ کیا جا رہا ہے’
ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے سرکاری اداروں اور پارلیمان کے بجٹ میں اس قدر بڑا اضافہ کفایت شعاری کے بلند و بانگ دعوؤں کے بالکل برعکس ہے۔
معاشی ماہر سلمان نقوی اسے ٹیکس دہندگان کی قیمت پر اشرافیہ کے تحفظ کے اقدامات قرار دیتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ صاف ظاہر ہے کہ حکومت ان لوگوں کی کم پرواہ رکھتی ہے جنہیں بھاری ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے اور مہنگائی بھی برداشت کرنی پڑتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ نجی اداروں میں کام کرنے والوں کو تنخواہیں بڑھنے کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی جب کہ انہیں اپنی تنخواہ سے معقول رقم ٹیکس کی ادائیگی پر خرچ کرنا پڑے گی۔
دوسری جانب سرکاری ملازمین چاہے وہ صوبائی حکومت کے تحت کام کر رہے ہوں یا وفاقی حکومت کے ماتحت، انہیں تنخواہوں میں 25 فی صد تک اور سندھ میں اس سے بھی زیادہ کا اضافہ ملا ہے۔
اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ ان پر مہنگائی کے اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔ تاہم ان کی تنخواہوں سے ٹیکس ضرور کٹے گا۔ لیکن دوسری جانب نجی اداروں میں کام کرنے والے ملازمین کو ٹیکس کی ادائیگی بھی کرنی ہے اور تنخواہیں بڑھنے کے امکانات بھی کم ہیں۔
سرکاری ملازمین کو حاصل دیگر مراعات اس کے علاوہ شمار ہوتی ہیں اور دوسری جانب حکومت نے اپنے خسارے پورے کرنے کے لیے دودھ کے ڈبوں تک پر بھی ٹیکس عائد کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کو اس مالی سال میں 500 ارب روپے تک کے فنڈ دیے جائیں گے جن میں سے بیشتر رقم کرپشن کی نذر ہو جاتی ہے۔ ان کے خیال میں یہ رقم مقامی بلدیاتی نمائندوں کو ملنی چاہیے تھی۔ تاکہ علاقے ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکیں۔
‘سادگی اپنانے کے لیے غیر ضروری اخراجات گھٹائیں جا رہے ہیں’
لیکن دوسری جانب وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ حکومت نے اپنے پبلک سیکٹر کے ترقیاتی اخراجات میں کمی کی ہے۔
اُن کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ وزرا تنخواہیں نہیں لے رہے اور وہ اپنے یوٹیلیٹی بلز بھی خود ادا کر رہے ہیں۔
سیکریٹری خزانہ کی جانب سے قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے بجٹ اسٹیٹمینٹ میں بھی کہا گیا یے کہ حکومت سماجی ترقی پر مختص رقم کو یقینی بنا رہی ہے۔
دوسری جانب سادگی اپنانے کے اقدام کے تحت غیر ضروری خرچے کم کر رہی ہے۔
اسٹیٹمنٹ کے مطابق حکومت ایسی معاشی پالیسی اپنا رہی ہے جس سے مستحکم اقتصادی ترقی کے ساتھ معاشی نظم و ضبط پیدا کرتے ہوئے عام آدمی کو ریلیف فراہم کرنے کے ساتھ ضروری اخراجات بھی پورے کیے جا سکیں۔