لاہور ( خصوصی رپورٹ )عمران خان پر برسی نوازشات آج نواز شریف کا مقدر بن چکی ہیں.عمران خان اپنی لڑائی اسٹیبلشمنٹ کیساتھ جس انتہا تک پہنچا چکے ہیں ،یہ بات طے کہ دونوں میں سے ایک کو ہی رہنا ہے۔اب اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی کی ہر رگ میں سرایت کر چکی ہے ۔رہا معاملہ بہنوں کا توآنے والے کئی سال تک در بدر پھرناہے ۔ عمران خان کا بچنا ناممکن، 8فروری کے انتخابات میں تحریک انصاف موجود نہیں ہو گی عمران خان، لواحقین اور معتقدین تکلیف، کرب و ابتلاء سے گزر رہے ہیں تحریک انصاف کا اب اصل حالت میں بحال ہونا ناممکن ہے ۔معروف تجزیہ کار و کالم نگار حفیظ اللہ نیازی کھل کر بول پڑے ۔
“جیو نیوز ” میں شائع ہونیوالے اپنے بلاگ “عمران خان تنہا، سیاست ہار گیا” میں حفیظ اللہ نیازی نے لکھا کہ عرصہ دراز سے رٹ لگائی کہ عمران خان کا بچنا ناممکن، 8فروری کے انتخابات میں تحریک انصاف موجود نہیں ہو گی ۔ عمران خان، لواحقین اور معتقدین جس تکلیف، کرب و ابتلاء سے گزر رہے ہیں اسکا بخوبی اندازہ اور دلی دکھ و ازحد افسوس ہے۔ اگرچہ 5 سال پہلے لکھا کالم حرف بحرف سچ ثابت ہوا ، آج بھی آرٹیکل 10-A ابدی نیند سو رہا ہے ۔البتہ نواز شریف پر بیتے مسائل مشکلات عمران خان کو منتقل اور عمران خان پر برسی نوازشات آج نواز شریف کا مقدر بن چکی ہیں ۔ اختلاف رائے رکھنے والے سیاستدان ، وزرائے اعظم کا مقدر جیل یا جلا وطنی یاپھر لقمۂ اجل ، ہر حالت میں ایک عرصہ تک سیاست کے دروازے بند رہتے ہیں۔ یہ ایک ایسی اٹل حقیقت جس سے آنکھیں چرانا سیاسی عاقبت نا اندیشی کہلائے گا ۔ کل ہی عمران خان کی بہن نے خان صاحب کی صورتحال یا حالت زار کاجامع نقشہ دو فقروں میں باندھ دیا ،’’ کہاں ہیں وہ وکلاء جو کہتے تھے کہ وکلاء لشکر بن کر ٹوٹ پڑیں گے ؟ آج سارے وکلاء عمران خان کو کسمپرسی میں چھوڑ کر اپنی اپنی الیکشن کمپین میں مصروف ہیں‘‘۔
بلاگ میں حفیظ اللہ نیازی نے مزید لکھا کہ گوہر خان کی تعیناتی پر میرا واویلا ایک ہی تھا کہ PTI اُچک لی گئی ہے ۔ میرے حساب کتاب میں اس میں عمران خان کی رضا و رغبت شامل رہی ہوگی ۔ عمران خان نے چشم تصور میں اسٹیبلشمنٹ سے جو ڈیل کرنی ہوگی ، اسکی شروعات سمجھی گئی ۔ باوجودیکہ اسٹیبلشمنٹ عمران خان سے کسی قسم کی ڈیل کی دلچسپی نہیں رکھتی ۔اگرچہ پارٹی میں نقب لگائی جا چکی ہے ، غیر متعلقہ عناصر سے پارٹی کا قبضہ چھڑانے کیلئے کچھ بچے کھچے پرانے نامور کل سے متحرک ہیں،پارٹی کو بچانے کیلئے سر توڑ کوشش کر رہے ہیں ۔بالفرض محال کوشش کامیاب ہو بھی گئی تو تحریک انصاف کا اب اصل حالت میں بحال ہونا ناممکن ہے ۔ بحال شدہ پارٹی گوہر خان کی تحریک انصاف سے قطعاً مختلف نہیں ہوگی کہ اب اسٹیبلشمنٹ ہر رگ میں سرایت کر چکی ہے ۔رہا معاملہ بہنوں کا توآنے والے کئی سال تک در بدر پھرناہے مگر آخری سانس تک عمران خان کا ساتھ نہیں چھوڑیں گی ۔عمران خان اپنی لڑائی اسٹیبلشمنٹ کیساتھ جس انتہا تک پہنچا چکا،یہ بات طے کہ دونوں میں سے ایک کو ہی رہنا ہے ۔ لڑائی کی ایسی قسم میں اسٹیبلشمنٹ بات کرنے پر تیار نہ موڈ میں ہے ۔اس سے پہلے بھٹو بمقابلہ اسٹیبلشمنٹ میں جنرل ضیاء الحق کسی صورت بھٹو کیساتھ بات کرنے پر تیار نہ تھے ۔
بلاگ کے آخر میں حفیظ اللہ نیازی نے لکھا کہ ووٹرز بے بس ، بے کس اور بے یار و مددگار اس شش و پنج میں کہ ووٹ دیتے ہیں تو اسٹیبلشمنٹ کی جیت ، گھر بیٹھتے ہیں تو بھی اسٹیبلشمنٹ کی جیت ۔ آزاد امیدواروں کی جیت تو اسٹیبلشمنٹ کے زیادہ وارے میں ۔عمران خان کے سخت بیانیہ کے حقوق ملکیت لینے پر کوئی رہنما اسلئے آمادہ نہ ہوا کہ عمران نے بنفس نفیس احتیاط برتی۔ آج عمران خان کو سخت سزاؤں کے باوجو د گوہر خان سمیت پارٹی قیادت پُر امن احتجاج سے بھی احترا ز برت رہی ہے۔ آج کڑے وقت میں ایک بھی تو نہیں جو عمران خان کا سخت بیانیہ عام کرنے کیلئے صف اول میں موجود ہو ۔ پھانسی سے چند دن پہلے بھٹو کے دل دہلا دینے والے، کرنل رفیع الدین کو کہے، چند فقرے ،’’ کرنل ! آج میں تنہا ہوں ۔ نصرت اور بینظیر کے علاوہ آج میرے ساتھ کوئی نہیں ہے‘‘۔ آج عمران خان اکیلا تنہا ، عمران خان کی اپنی والی تحریک انصاف عملاً تحلیل ہو چکی ہے ۔عمران خان کی متاع سیاست لٹ چکی ۔’’وائے ناکامی!متاع زندگی و کارواں ، سیاست سب کچھ جاتا رہا‘‘۔