پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان کہتے ہیں کہ انتخابی عمل کے آغاز کے باوجود پی ٹی آئی کے خلاف انتقامی کارروائیوں میں نرمی نہیں ہوئی۔ مقتدر حلقے کو ادراک ہونا چاہیے کہ اب بہت ہو گیا، ہمیں ایسی جگہ نہ لے جائیں جہاں سے واپسی ممکن نہ ہو۔
بیرسٹر گوہر علی خان نے وائس آف امریکہ کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں کہا کہ ہر حکمران اور آمر کی طاقت نے بلآخر ختم ہو جانا ہے۔ لیکن اس ملک، عوام اور جمہوریت نے رہنا ہے۔ اگر اس بات کا احساس ہو گیا تو اختلافات بھلا کر آگے بڑھ سکیں گے۔
وہ کہتے ہیں کہ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کہ ادارے اور سب سے مقبول جماعت آپس میں دست و گریباں ہوں۔ اس طرح کے حالات میں جمہوریت و ملک کی بہتری نہیں ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی چھینے گئے۔ گھروں پر چھاپے مارے گئے۔ لیکن اس کے باوجود احتجاج کی کال نہیں دی اور تحمل کا مظاہرہ کیا۔ الیکشن آٹھ فروری کو ہو رہے ہیں۔ ہمیں اس انتخابی عمل سے باہر نہ کیا جائے۔
انتخابات کا ذکر کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کی جماعت کا انتخابی نشان چھن جانے سے پہلے ہی بہت نقصان ہو گیا ہے۔ قومی و صوبائی اسمبلیوں کی 227 مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو نہیں مل سکیں گی۔ پی ٹی آئی کا ایک انتخابی نشان نہ ہونے کی بنا پر آزاد حیثیت میں جیتنے والے تمام اراکین اسمبلی بھی اگر الیکشن کے بعد پی ٹی آئی میں شامل ہو جائیں۔ تو بھی مخصوص نشستیں نہ ہونے کی وجہ سے پی ٹی آئی کو وزیرِ اعظم کے انتخاب، صدر کے انتخاب اور سینیٹ الیکشن میں بہت بڑا نقصان ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ عام انتخابات ہونے والے ہیں تو اختلافات کو بھلاتے ہوئے مستقبل کی طرف بڑھنا ہوگا۔ نہیں تو تیسری قوت کو فائدہ اٹھانے کا موقع ملے گا۔ حکومت کے خاتمے کے بعد جتنی زیادتی پی ٹی آئی کے ساتھ ہوئی ہے اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ پی ٹی آئی قیادت جیل میں ہے یا زیر زمین ہے اور ایک ایک رہنماء پر کئی کئی پولیس مقدمات کا مقصد یہ ہے کہ انہیں کسی طریقے سے سیاست باہر کیا جاسکے۔
ان کے بقول اب مستقبل کی طرف بڑھنا چاہیے۔ اگر ملک کی بڑی جماعت سے لڑائی مول لے لی جائے اور اسے جمہوری عمل میں حصہ نہ لینے دیا جائے۔ تو کیا یہ جمہوری ملک کہلائے گا۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ کس کا ذکر کر رہے ہیں؟ تو جواب میں بیرسٹر گوہر نے کہا کہ کچھ ادارے ان کی جماعت کے خلاف رہے ہیں اور مخالف جماعت کی سہولت کاری کر رہے ہیں۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مثال کے طور پر الیکشن کمیشن نے صرف ان کی جماعت کے انٹرا پارٹی انتخابات کا مقدمہ چلایا۔ صرف ان کی جماعت کی غیر ملکی فنڈنگ کی تحقیقات کیں۔
وہ کہتے ہیں کہ جہاں سے بھی طاقت کا استعمال ہو رہا ہے اسے ختم ہونا چاہیے۔ ایک دوسرے کو دیوار سے نہیں لگانا۔ اس سے جمہوریت، معیشت اور عوام ہار جائیں گے۔ پی ٹی آئی اور اداروں کے درمیان عدم اعتماد رہا ہے۔ اسے دور کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ شفاف انتخابات اور آگے بڑھنے کے لیے کسی سے بھی بات چیت کے لیے تیار ہیں تاکہ عوام اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہوئے جسے منتخب کریں وہ حکومت کرے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں آئندہ ماہ آٹھ فروری کو عام انتخابات ہونے ہیں جس سے قبل ملک میں نگراں حکومت قائم ہے۔ نگراں حکومت کا کہنا ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کو نشانہ نہیں بنایا جا رہا بلکہ قانون کے مطابق اور عدالت کے جاری کردہ فیصلوں کی روشنی میں اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ دوسری جانب ملک کی طاقت ور فوج کے ترجمان متعدد بار یہ پریس کانفرنسوں میں یہ اعلان کر چکے ہیں کہ ان کا سیاست میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔
اداروں سے رابطے کے حوالے سے پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ انہوں نے رابطہ کیا ہے، نہ ہی اداروں کی جانب سے ان سے رابطہ کیا گیا ہے۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ ان کی نظر میں اگر آگے بڑھنا ہے تو کچھ بات چیت کرنی ہوگی۔
اس سوال پر کہ کیا عمران خان نے ان کو اداروں سے بات چیت کا اختیار دیا ہے؟ کے جواب میں بیرسٹر گوہر نے کہا کہ بانی چیئرمین اور جماعت کے بیانات موجود ہیں کہ آزاد و شفاف الیکشن کے لیے سب سے بات چیت کے لے تیار ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ایک طرف نواز شریف کو واپس بلا کر اس کے تمام مقدمات ختم کرکے الیکشن کے لیے اہل بنایا گیا۔ تو دوسری طرف پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین کے خلاف غداری سے لے کر ہر قسم کے مقدمات بنائے گئے۔ پی ٹی آئی کو تنہا کرکے ایک طرف نہ لے جایا جائے۔ ان کے بقول ریاست اگر ایک سیاسی جماعت کے خلاف ہوگی تو اس سے جمہوری عمل کو نقصان پہنچے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں سیاسی انتشار کے ماحول کو ختم کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہے تو ریاست پی ٹی آئی کو انتخابات میں حصہ لینے کا ماحول مہیا کرے۔ سرکار، عدلیہ اور الیکشن کمیشن ہمیں آسانی دیں تو ماحول بنے گا اور آگے بڑھیں گے۔ سب سے پہلے پی ٹی آئی الیکشن میں حصہ لینے دیا جائے۔
بیرسٹر گوہر علی خان کہتے ہیں کہ عمران خان یا تحریکِ انصاف نے آرمی چیف کے تقرر کے عمل کو متاثر کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ اس حوالے سے پارٹی رہنماؤں کے بیانات ان کی ذاتی رائے ہو سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آرمی چیف کا تقرر ایک آئینی عمل کے نتیجے میں ہوتی ہے جس کا اختیار وزیرِ اعظم کے پاس ہے کہ وہ صدر کو سفارش کرکے جسے چاہیں مقرر کریں۔
تحریکِ انصاف کے چیئرمین کہتے ہیں کہ آج تک اگر کسی نے آرمی چیف کی تقرری کے عمل کو متنازع بنایا ہے تو وہ نواز شریف ہیں جنہوں نے فوج کے سربراہ سے یا تو استعفی لیا یا اختلافات کے نتیجے میں حکومت کا خاتمہ ہوا۔
اس سوال کہ کیا پی ٹی آئی کی فیصلہ سازی عمران خان کے ہاتھ میں ہوتے ہوئے فوج سے صلح ہوسکتی ہے؟ کے جواب میں بیرسٹر گوہر نے کہا کہ عمران خان نے فوج سے کوئی جھگڑا نہیں کیا اور اس غلط تاثر کو انہوں نے دور کرنے کی کوشش کی ہے۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان کہتے ہیں کہ ‘بلے’ کا انتخابی نشان چھن جانے کے باوجود الیکشن کا بائیکاٹ نہیں کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی جمہوریت پر یقین رکھتی ہے اور انتخابی میدان کھلا نہیں چھوڑیں گے۔ اگر تحریکِ انصاف (الیکشن میں) حصہ نہیں لیے گی تو زیادہ نقصان ہو گا کیوں کہ سارے مخالفین اسمبلی میں آ جائیں گے۔ بہتر یہی ہوگا کہ پی ٹی آئی پارلیمنٹ سے پانچ سال باہر رہنے کے بجائے اسمبلی میں جدوجہد کرے۔
وہ کہتے ہیں کہ بلے کا انتخابی نشان چھن جانے کے بعد ان کے حامی اور ووٹرز ابہام کا شکار ہیں کیوں کہ ان کے امیدواروں کو اب آزاد حیثیت میں الگ الگ انتخابی نشانات دیے گئے ہیں۔ وہ یہی خیال کرتے ہیں کہ آزاد حیثیت میں جیتنے والے ان کے امیدواران الیکشن کے بعد پی ٹی آئی کے ساتھ رہیں گے اور پارلیمنٹ کے اندر بھرپور کردار ادا کریں گے۔
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ بلے کے انتخابی نشان کے حصول کے عدالتی عمل میں وہ ہارے نہیں ہیں بلکہ انہیں ہرایا گیا ہے۔ عمران خان نے پارٹی چیئرمین کا عہدہ صرف اس لیے چھوڑ کر انہیں چیئرمین بنایا تاکہ کسی کو بہانہ نہ ملے اور انتخابی نشان ‘بلا’ بچایا جاسکے۔
عدالتی فیصلوں کے حوالے سے بیرسٹر گوہر خان کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے پر اپیل کا آئینی حق رکھتے ہیں جسے بروئےکار لایا جائے گا۔ ابھی سپریم کورٹ نے تفصیلی فیصلہ جاری نہیں کیا جس کی روشنی میں نظرِ ثانی اپیل دائر کی جائے گی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے مختصر فیصلے میں قانونی سقم موجود ہیں۔ جن کی بنیاد پر نظرِ ثانی اپیل دائر کی جائے گی۔ دوسرا وہ یہ نقطہ بھی اٹھائیں گے کہ آئینی معاملات کو تین رکنی بینچ کی بجائے لاجر بینج کو سننا چاہیے۔
اس سوال کہ ایک طرف نظرِ ثانی اپیل دائر کر رہے ہیں دوسری جانب لیول پلیئنگ فیلڈ کی اپیل واپس لے کر سپریم کورٹ پر عدم اعتماد ظاہر کر رہے ہیں تو کیا یہ تضاد نہیں ہے؟ کے جواب میں بیرسٹر گوہر خان نے کہا کہ لیول پلیئنگ فیلڈ کی درخواست اس بنا پر واپس لی کہ وہ جماعت کی جانب سے دائر کی گئی تھی اور پی ٹی آئی کو انتخابی نشان لے کر بحثیت جماعت الیکشن سے باہر کردیا گیا ہے لہذا اس درخواست کا جواز باقی نہیں رہا تھا۔
تاہم پی ٹی آئی چیئرمین نے واضح کیا کہ وہ سپریم کورٹ پر اعتماد رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کو اتنی بڑی سزا نہیں دی جانی چاہیے تھی کہ اس سے انتخابی نشان ہی چھین لیا جائے۔ لیکن اس کے باوجود ہم کسی جج پر عدم اعتماد ظاہر نہیں کریں گے۔
بیرسٹر گوہر کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی نہیں چاہے گی کہ الیکشن کے بعد تنہا چلے بلکہ کوشش ہوگی کہ سب کے ساتھ مل کر ملک کی بہتری کے لیے کام کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے شفاف انتخابات کے ایک نقطے پر سیاسی جماعتوں سے بات چیت کی خواہش ظاہر کی تھی اور مستقبل میں بھی معیشت و دہشت گردی کے عنوانات پر ساتھ دینے کو تیار ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ الیکشن کے بعد کے حالات ابھی سامنے آنا باقی ہیں اور دیکھنا ہوگا کس کی حکومت بنتی ہے اور کس طرح آگے بڑھا جاسکتا ہے۔ وہ جماعتیں جو جمہوریت کے لیے سوچتی ہیں اور قانونی کی بالادستی پر یقین رکھتی ہیں ان کے ساتھ مل کر چلیں گے۔
بیرسٹر گوہر خان نے کہا کہ پی ٹی آئی کسی جماعت کے ساتھ اتحاد کے بغیر الیکشن میں حصہ لے رہی ہے اور ملک بھر کے 860 قومی و صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں سے پی ٹی آئی نے 815 حلقوں میں اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی ملک کی مقبول جماعت ہے اور وہ پر امید ہیں کہ جن لوگوں کو الیکشن میں کھڑا کیا ہے وہ جیتنے کے بعد اپنی وفاداریاں تبدیل نہیں کریں گے۔
اس سوال کہ آپ کا پلان ‘اے’ اور ‘بی’ ناکام ہوگیا ہے تو پلان ‘سی’ کیسے کامیاب ہوگا؟ کے جواب میں بیرسٹر گوہر خان نے کہا کہ اب ہم نے بھی سبق سیکھ لیا ہے کہ یہ چھوڑتے نہیں ہیں اور ہم ہار مانتے نہیں اور جو ہار نہیں مانتا وہ جیت جاتا ہے۔
بیرسٹر گوہر کہتے ہیں کہ نو مئی کے واقعات کے الزام میں پی ٹی آئی کے گرفتار رہنماؤں اور کارکنوں کو عام معافی مل جائے تو بہتر ہے اور اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو الزامات کی تحقیقات کے لیے کمیشن کا قیام عمل میں لایا جائے۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر کسی نے جرم کیا ہے تو اسے سزا ہونی چاہیے لیکن اس ضمن میں پی ٹی آئی کے خدشات دور کیے جانے چاہئیں۔
انہوں نے کہا کہ الزامات کی پہلے تحقیقات ہونی چاہیے اور عدالتی کمیشن کے ذریعے ان کی تصدیق کے بعد گرفتاریوں اور سزاؤں کا تعین کیا جائے۔ عدالتی کمیشن اور تحقیقات میں جو ملوث پایا جائے اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ اس ایک واقعے کی بنیاد پر پی ٹی آئی کو توڑا نہ جائے۔ پی ٹی آئی بطور جماعت ایسی کسی سرگرمی میں ملوث نہیں ہے جو ریاست یا پاکستان کی سالمیت کے خلاف ہو۔
انہوں نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کی پی ٹی آئی پر کسی بھی بنا پر پابندی لگائی جا سکتی ہے۔ پی ٹی آئی عمران خان کے نظریے پر قائم جماعت ہے۔ لہٰذا وہ کسی صورت جماعت سے مائنس نہیں ہوسکتے۔ ان کی جماعت اب بھی سمجھتی ہے کہ امریکہ نے ان کی حکومت کے خاتمے میں کردار ادا کیا تھا۔ اب یہ بیان واشنگٹن ڈی سی میں اس وقت کے پاکستانی سفیر اسد مجید نے عدالت میں دیا ہے اور امریکی دھمکی آمیز سائفر کو قومی سلامتی کمیٹی کے سامنے بھی رکھا گیا تھا۔
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان حملوں کے تبادلے کے نتیجے میں الیکشن ملتوی نہیں ہوں گے۔ پاکستان کی مسلح افواج اپنے دفاع اور کسی بھی جارحیت کا جواب دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔