|
پشاور—پاکستان کے قبائلی ضلعے کرم میں چھ روز کی کشیدگی اور متحارب قبائلیوں میں مسلح جھڑپوں کے بعد منگل کو مجموعی طور پر صورتِ حال پُر امن ہے۔
حالات پُر امن ہونے کے باوجود روز مرہ کے تجارتی اور سماجی معمولات اب بھی مکمل طور پر بحال نہیں ھو سکے ہیں۔
ضلع کرم کے ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود نے فریقین میں فائر بندی اور خون ریز جھڑہوں کے بند ہونے کی تصدیق کی ہے۔
ڈی سی جاوید اللہ محسود نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ فریقین سے مورچے خالی کرا لیے گئے ہیں۔
ان کا دعویٰ تھا کہ اب ان مورچوں میں سیکیورٹی فورسز کے اہلکار تعینات ہیں۔
ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ ضلع کرم کے متاثرہ پانچ مقامات پر پیر کی رات سے کسی قسم کی فائرنگ نہیں ہوئی۔
گزشتہ ہفتے بدھ سے شروع ہونے والی جھڑپوں کا سلسلہ پیر تک جاری تھا۔
کرم کے ضلعی ہیڈ کوارٹر (ڈی ایچ کیو) پاڑہ چنار کے اسپتال کے ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ چھ روز کے دوران 49 افراد ہلاک جب کہ 226 زخمی ہوئے۔
مقامی صحافی محمد جمیل نے جھڑپوں رکنے کے بعد کی صورتِ حال کے حوالے سے بتایا کہ پاڑہ چنار اور پشاور کے درمیان مرکزی شاہراہ منگل کو ساتویں روز بھی ہر قسم کی آمد و رفت کے لیے بند ہے۔
قبائلی رہنما میر افضل خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ مرکزی شاہراہ بند ہونے کے باعث کسانوں اور تاجروں کا نقصان ہو رہا ہے۔
ان کے بقول شاہراہوں کی بندش کے باعث اشیا خور و نوش، ادویات اور دیگر ضروری اشیا کی کمی کے سبب شہریوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔
کرم کے دوسرے بڑے قصبے سدہ سے تعلق رکھنے والے صحافی محمد جمیل نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پیر کی رات سے ضلعے بھر سے کسی بھی ناخوش گوار واقع کی اطلاع نہیں ملی۔
ان کا کہنا تھا کہ بوشہرہ، مالی خیل، تری منگل اور دیگر دیہات میں متحارب گروہوں سے مورچے خالی کرا لیے گئے ہیں۔
پاڑہ چنار سے تعلق رکھنے والے صحافی علی افضل افضال نے علاقے کی مجموعی صورتِ حال کے پر امن ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ پیر کی رات پاڑہ چنار سے زخمیوں کو پشاور منتقل کیا گیا ہے۔ ان کے بقول بعض اطلاعات ایسی ملی ہیں کہ ان ایمبولینسوں پر بھی فائرنگ اور پتھراؤ کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ زخمیوں کو پشاور لے جانے کے بجائے واپس پاڑہ چنار منتقل گیا ہے۔
علی افضل افضال نے کہا کہ چھ دن کے لڑائی کے دوران شدید زخمی بھی پاڑہ چنار کے ضلعی ہیڈ کوارٹر اسپتال میں زیرِ علاج تھے ۔
ان کے بقول امن معاہدہ طے پانے کے بعد پیر کو پولیس سمیت دیگر سیکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کی حفاظت میں متعدد ایمبولینسوں میں زخمیوں کو پشاور روانہ کیا گیا۔ تاہم جب یہ قافلہ مامو خواڑ کے علاقے میں پہنچنا تو وہاں پہلے سے موجود افراد نے راستہ روکا لیا اور گاڑیوں پر پتھراؤ شروع کر دیا جس پر گاڑیوں کو واپس روانہ کر دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ کچھ زخمی افراد کو ٹھل میں فوجی اسپتال بھی روانہ کیا گیا۔
قبائلی رہنما جلال بنگش اور رکن صوبائی اسمبلی علی ہادی عرفانی نے ایمبولینس گاڑیوں پر حملے کو افسوس ناک قرار دیا اور واقعے میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔
صحافی علی افضل افضال نے بتایا کہ ضلعی انتظامیہ نے قبائلی تصادم میں جانی و مالی نقصان کے بارے میں سرکاری اعداد و شمار جاری نہیں کیے ہیں۔
انہوں نے پولیس ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ضلع کرم میں حالیہ مسلح تصادم میں 49 افراد ہلاک جب کہ 226 زخمی ہوئے ہیں۔
واضح رہے کہ افغانستان کی سرحد کے ساتھ واقع خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں کئی دہائیوں سے زمین کے تنازع پر لڑائی جھگڑے ہو رہے ہیں۔
برطانوی راج میں پہاڑوں یا دریا کے کنارے غیر آباد زمینوں کو شاملات کا نام دے کر اس کے لیے اصول مرتب کیے گئے تھے۔
یہ زمینیں قبائل کی مشترکہ ہوتی ہیں جن میں جنگلات، چراگاہیں، پہاڑ یا دریا کے کنارے غیر آباد زمینیں، جنازہ گاہ اور قبرستان وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔
شاملات کی ان زمینوں پر کسی فریق کی جانب سے قبضے کی کوششوں کی وجہ سے جھگڑے اور پھر مسلح تصادم ہوتے ہیں۔ بعض اوقات یہ تصادم فرقہ وارانہ کشیدگی کا بھی سبب بنتے رہے ہیں۔
چند سال قبل صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والا قبائلی ضلع کرم ملکی سطح پر فرقہ وارانہ فسادات کے حوالے سے حساس خطوں میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے۔
کرم کی سرحدیں افغانستان کے صوبوں خوست، ننگرہار اور پکتیا کے ساتھ ساتھ پاکستان کے قبائلی اضلاع خیبر، اورکزئی اور شمالی وزیرستان سے ملتی ہیں۔
قبائلی علاقوں میں کرم وہ پہلا علاقہ ہے جہاں پر سب سے پہلے فرقہ وارانہ فسادات کے نام پر سنی اور شیعہ آبادی کے درمیان بدترین لڑائیوں کی ابتدا ہوئی۔ خیبر پختونخوا کا یہ واحد ضلع ہے جہاں شیعہ آبادی بڑی تعداد میں آباد ہے۔
مبصرین کے مطابق ایک جانب ضلع کرم میں شیعہ سنی فرقہ وارانہ تناؤ کی شدت کافی زیادہ ہے جب کہ دوسری جانب ضلعے میں مقیم قبائل کے مابین برسوں سے زمینی تنازعات بھی ہیں۔
مقامی عمائدین اور ماہرین کہتے ہیں کہ شروع میں کرم ضلع میں شیعہ سنی آبادی ایک دوسرے کے ساتھ ایک ہی علاقے میں صدیوں سے رہے تھے۔ ضلع کرم میں سنی اور شیعہ قبائل میں اکثریت اور اقلیت کا پہلو پہلے بھی موجود تھا۔ اپر کرم یعنی پاڑہ چنار شیعہ اکثریتی علاقہ تھا۔ لیکن ان کے ساتھ سنی بھی رہتے تھے جب کہ لوئر کرم میں سنی اکثریتی آبادی تھی البتہ شیعہ بھی ان کے ساتھ رہتے تھے۔ وسطی کرم پہلے ہی سےسنی آبادی کا علاقہ تھا۔
مبصرین کے مطابق گزشتہ برس سے شیعہ سنی تنازعات کی وجہ سے دونوں مکاتب فکر نے ایک دوسرے کے علاقوں سے مکمل انخلا کر لیا ہے۔
اپر کرم خصوصاً پاڑہ چنار سے تقریباً تمام سنی ہجرت کر چکے ہیں جب کہ لوئر کرم خصوصاً سدا سے تمام شیعہ پاڑہ چنار منتقل ہو چکے ہیں۔
سال 2007 سے 2012 تک کرم میں فرقہ وارانہ فسادات کے سبب اپر کرم میں بسنے والے لوگ پاکستان کے دوسرے حصوں میں جانے کے لیے پہلے افغانستان جاتے تھے اور وہاں سے طورخم کے ذریعے دوبارہ پاکستان میں داخل ہوتے تھے۔
اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ان علاقوں کو پشاور اور بنوں جیسے شہروں سے ملانے والی واحد سڑک لوئر کرم سے گزرتی تھی جہاں کے سنّی باشندوں نے اسے اپر اور وسطی کرم میں رہنے والے شیعہ قبائل کے لیے بند کر رکھا تھا۔
سیکیورٹی فورسز نے بعد ازاں یہ سڑک آمد و رفت کے لیے کھول کر لوگوں کے تحفظ کے لیے نفری بھی تعینات کی تھی۔