|
اسلام آباد — سال 2024 پاکستان میں سیاسی حوالوں سے انتہائی اہمیت کا حامل رہا۔ اسی برس فروری میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں نئی قومی اسمبلی وجود میں آئی۔
قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ایوانوں پر مشتمل پارلیمان نے 2024 میں کئی متنازع قوانین منظور کیے جن کی بازگشت سال کے اختتام پر بھی سنائی دے رہی ہے۔
انتخابات کے بعد قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس ہی ہنگامہ خیز رہا ہے اور اس دوران پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کے کارکنوں نے دھاندلی کے الزامات عائد کیے۔
اسی برس اعلٰی عدلیہ کے اختیارات سے متعلق متنازع 26 ویں آئینی ترمیم سمیت دیگر قوانین منظور کیے گئے۔
سن 2024 میں لگ بھگ ایک ماہ تک ایوان بالا یعنی سینیٹ غیر مؤثر رہا جب کہ صوبہ خیبرپختونخوا میں سینیٹ انتخابات تاحال نہیں ہونے سے سینیٹ کا ایوان بھی نامکمل ہے۔
اس طرح قومی اسمبلی سمیت چاروں صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں الاٹ نہیں ہو سکیں۔ اس کے باعث قومی اسمبلی میں 23 نشستوں سمیت چاروں صوبائی اسمبلیوں میں خواتین اور اقلیتوں کی 77 نشستیں تاحال خالی ہیں۔
پارلیمان میں آئینی عہدوں کے انتخابات
پاکستان میں آٹھ فروری کے عام انتخابات کے بعد قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس 29 فروری کو ہوا جس میں 302 نو منتخب ارکان نے بطور رکن عہدے کا حلف لیا۔
یکم مارچ کو اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب ہوا۔ سردار ایاز صادق 199 ووٹ لے کر اسپیکر قومی اسمبلی منتخب ہوئے جب کہ اپوزیشن کے عامر ڈوگر کو 91 ووٹ ملے۔
اسپیکر منتخب ہونے کے بعد سردار ایاز صادق نے ڈپٹی اسپیکر کے عہدے کے لیے الیکشن کرائے۔
پیپلز پارٹی کے سید غلام مصطفی شاہ 197 ووٹ لے کر ڈپٹی اسپیکر منتخب ہوئے جب کہ ان کے مدِمقابل اپوزیشن کے جنید اکبر کو 92 ملے۔
وزیرِ اعظم کا انتخاب تین مارچ کو ہوا۔ مسلم لیگ (ن) کے شہباز شریف 201 ووٹ لے کر وزیرِ اعظم منتخب ہوئے جب کہ ان کے مدِمقابل اپوزیشن کے عمر ایوب خان کو 92 ووٹ ملے۔
وزیرِ اعظم کے انتخاب کے بعد 10 مارچ کو قومی اسمبلی سمیت چاروں صوبائی اسمبلیوں میں صدر پاکستان کے عہدے کے لیے پولنگ ہوئی۔
پیپلز پارٹی کے آصف علی زرداری 411 ووٹ لے کر صدر منتخب ہوئے جب کہ اپوزیشن کے محمود خان اچکزئی 181 ووٹ لے سکے۔
دو اپریل کو قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں سینیٹ کی خالی نشستوں پر انتخاب ہوا تاہم مخصوص نشستوں کے تنازع کے باعث خیبرپختونخوا کی سینیٹ کی 11 نشستوں پر انتخابات ملتوی کر دیے گئے۔
سینیٹ الیکشن کے بعد نو اپریل کو یوسف رضا گیلانی بلامقابلہ چیئرمین سینیٹ اور سیدال خان ناصر ڈپٹی چیئرمین منتخب ہوئے۔ تحریکِ انصاف نے خیبرپختونخوا کی سینیٹ نشستوں پر انتخابات نہ ہونے کے باعث سینیٹ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں حصہ نہیں لیا تھا۔
قومی اسمبلی سے کتنے بل منظور ہوئے؟
موجودہ قومی اسمبلی نے 29 فروری کے پہلے اجلاس سے لے کر 10 ماہ کے عرصے میں 28 حکومتی اور سات نجی بل منظور کیے۔ جب کہ 14 آرڈیننس پیش کیے گئے۔
دس ماہ کے دوران پارلیمنٹ سے منظور ہونے والے مجموعی طور پر 36 بلز ایکٹ آف پارلیمنٹ بنے۔ اختتام پذیر ہونے والے رواں برس کے دوران قومی اسمبلی نے آرمی چیف، نیول اور ایئر فورس چیف کی مدتِ ملازمت تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کرنے کے تین ترمیمی بل منظور کیے۔
اسلام آباد کے ریڈ زون میں دھرنوں پر پابندی کا قانون بھی منظور کیا گیا۔
سال 2024 کے دوران قومی اسمبلی میں حکومتی ارکان کی جانب سے اعلیٰ عدلیہ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ حکومت نے عدلیہ کے متعلق متعدد بلز منظور کروائے۔ 26 ویں آئینی ترمیم آئینی معاملات کو دیکھنے کے لیے آئینی عدالتوں کا قیام عمل میں لانے کے لیے منظوری کرائی گئی۔
لگ بھگ ایک ماہ تک مولانا فضل الرحمان کو اس ترمیم کے لیے حکومت مناتی رہی جس کے بعد کچھ شرائط تسلیم کرانے کے بعد مولانا فضل الرحمان کی پارٹی نے بھی اس ترمیم کے حق میں ووٹ دیا۔ اس ترمیم کے لیے چھٹی کے دن بھی اجلاس طلب کیے گئے اور رات دیر تک بھی کارروائی چلتی رہی۔
اس کے علاوہ سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز کی تعداد بڑھانے کے لیے بھی بلز منظور کیے گئے۔ الیکشن ایکٹ اور اسلام آباد بلدیاتی ایکٹ میں ترامیم کے بلز بھی منظور کرائے گئے جس سے اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات مزید تاخیر کا شکار ہو گئے۔
پہلی مرتبہ سگریٹ پینے کا واقعہ
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران ایوان کے اندر ایک رکن کی جانب سے سگریٹ پینے کا واقعہ رونما ہوا جس کا اسپیکر قومی اسمبلی نے فلور پر ذکر کرتے ہوئے کہا کہ تاریخ میں پہلی بار ایوان کی اندر سگریٹ پی گئی ہے۔ تاہم اسپیکر نے کسی کا نام نہیں لیا۔
پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار پارلیمنٹ کے اندر نقاب پوش اہلکاروں نے داخل ہو کر ارکانِ اسمبلی کو گرفتار کیا۔ اپوزیشن نے اس واقعے کو پارلیمان کی تاریخ کا سیاہ دن قرار دیا۔ اسپیکر نے اس معاملے کی انکوائری کا اعلان کیا، لیکن نقاب پوش افراد کا کچھ پتا نہ چل سکا۔
شہباز شریف اور نواز شریف کتنی مرتبہ ایوان میں آئے؟
انتیس فروری سے اس وقت تک ایک مشترکہ پارلیمنٹ کا اجلاس اور قومی اسمبلی کے 11 سیشنز ہو چکے ہیں جن کے دوران مجموعی طور پر 79 دنوں کے اجلاس ہوئے ہیں۔
قومی اسمبلی کے حاضری ریکارڈ کے مطابق قومی اسمبلی سے وزیرِ اعظم منتخب ہونے کے بعد وزیرِ اعظم شہباز شریف کی قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں شرکت کم رہی۔ 79 دنوں کے اجلاسوں میں سے وزیرِ اعظم صرف 17 اجلاسوں میں شریک اور 62 اجلاسوں میں غیر حاضر رہے ہیں۔
سابق وزیرِ اعظم میاں نواز شریف نے تو اپنے چھوٹے بھائی کو بھی قومی اسمبلی کے اجلاسوں سے غیر حاضر رہنے میں پیچھے چھوڑ دیا۔ ریکارڈ کے مطابق میاں نواز شریف 79 اجلاسوں میں سے صرف پانچ اجلاسوں میں شریک ہوئے جب کہ 74 اجلاسوں میں غیر حاضر رہے۔ جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان صرف 10 اجلاسوں میں شریک ہوئے اور 69 اجلاسوں میں غیر حاضر رہے ۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری 18 اجلاسوں میں شریک اور 61 اجلاسوں میں غیر حاضر رہے۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر 72 اجلاسوں میں شریک اور صرف سات اجلاسوں میں غیر حاضر رہے۔ اپوزیشن لیڈر عمر ایوب 65 اجلاسوں میں شریک اور 14 اجلاسوں میں غیر حاضر رہے۔
پاکستان میں جمہوری اقدار پر نظر رکھنے والے غیر سرکاری ادارے ‘پلڈاٹ’ کے سربراہ احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ اسمبلی نے پچھلی اسمبلی کے مقابلے میں چھ گنا زیادہ قانون سازی کی ہے۔
اسمبلی نے 10 ماہ میں 37 قوانین منظور کیے ہیں جب کہ اس اسمبلی میں پچھلی اسمبلی کے مقابلے میں آرڈیننس بھی زیادہ پیش ہوئے ہیں جن کی تعداد 13 ہے۔
احمد بلال محبوب کا مزید کہنا تھا کہ رواں برس سیاسی ایجنڈے کو مدِنظر رکھتے ہوئے قانون سازی ہوئی۔ پارلیمان کے اندر منتخب ارکان کی گرفتاری تشویش ناک عمل تھا۔ لیکن اس سے بھی زیادہ تشویش ناک اور خطرناک عمل اس پر کوئی کارروائی نہ ہونا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم کے انتخاب کے ایک ماہ کے اندر قائم کمیٹیوں کا قیام عمل میں لانا ہوتا ہے۔ لیکن اس اسمبلی میں 67 روز بعد کمیٹیاں قائم ہوئیں۔ تاہم ابھی تک پبلک اکاونٹس کمیٹی کا قیام عمل میں نہیں لایا گیا۔
حکومت میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین کے نام کو لے کر اپوزیشن اور حکومت کے درمیاں اختلافات کے باعث پبلک اکاؤنٹ کمیٹی کا قیام عمل میں نہیں لایا جا سکا۔
حال ہی میں مسلم لیگ (ن) کے چیف وہپ طارق فضل چودھری کی جانب سے پی ٹی آئی کے چیف وہپ عامر ڈوگر کو اس حوالے سے تیسرا خط لکھا گیا۔
غیر سرکاری تنظیم فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کے پروگرام انچارج صلاح الدین کہتے ہیں کہ گزشتہ تین اسمبلیوں سے ہی مجموعی طور پر قانون سازی سست روی کا شکار ہے۔ لیکن سیاسی نوعیت کی قانون سازی کی رفتار میں تیزی رہی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بڑھتے ہوئے اختلافات کی وجہ سے پارلیمنٹ کی کارکردگی بھی متاثر ہو رہی ہے۔