Sunday, January 5, 2025
ہومPakistanمعاشی پالیسی ’اُڑان پاکستان‘: ’اہداف تب ہی حاصل ہوسکتے ہیں جب سیاسی...

معاشی پالیسی ’اُڑان پاکستان‘: ’اہداف تب ہی حاصل ہوسکتے ہیں جب سیاسی انتشار ختم ہو‘


  • ہر حکومت اہداف متعین کرتی ہے۔ لیکن اصل کام ان اہداف کے حصول کے لیے پالیسی بنانا اور اس پر عمل درآمد ہے: سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر اشفاق حسن
  • ’اُڑان پاکستان‘ کی تقریبِ اجراء میں سنجیدگی نہیں تھی۔ اس میں بہت سے تضادات بھی تھے: سابق وفاقی وزیرِ خزانہ سلمان شاہ
  • جب تک حکومت توانائی کی قیمت کو کم نہیں کرتی اس کے معاشی اہداف حاصل نہیں ہوسکتے: معاشی ماہر فرخ سلیم

اسلام آباد — حکومت نے ’اُڑان پاکستان‘ کے نام سے ایک معاشی پالیسی کا اعلان کیا ہے جس میں اقتصادی مسائل حل کرنے کے لیے فریم ورک کے تحت اہداف کا تعین کیا گیا ہے۔

وزیرِ اعظم شہباز شریف کی جانب سے اعلان کردہ ’اُڑان پاکستان‘ میں ملکی شرح نمو میں اگلے پانچ سال میں چھ فی صد اضافے کا ہدف مقرر کیا ہے اور آئندہ 10 برس یعنی 2035 تک مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا سائز ایک کھرب ڈالر تک لے جانے کا ہدف مقرر کیا ہے۔

گزشتہ مالی سال میں مجموعی پیداوار کی شرح تین فی صد سے کم رہی ہے جب کہ پاکستان کا جی ڈی پی لگ بھگ 374 ارب ڈالر رہا ہے۔

اُڑان پاکستان منصوبہ کے تحت آئندہ پانچ سال اور طویل مدت میں 2035 تک کے معاشی اہداف مقرر کیے گئے ہیں۔ یہ پالیسی ‘پانچ ایز‘ برآمدات، ای-پاکستان، مساوات اور بااختیاری، ماحولیاتی، خوراک اور پانی کا تحفظ، اور توانائی اور بنیادی ڈھانچہ کے تحت اہم اقتصادی مسائل حل کرنے کے لیے ایک ہدف شدہ فریم ورک فراہم کرتا ہے۔

معاشی بحالی کے کئی چیلنجز سے دوچار پاکستان کی وفاقی حکومت نے ’اُڑان پاکستان‘ کا اعلان ایسے وقت میں کیا ہے جب مہنگائی میں کمی اور معاشی اشاریوں میں بہتری ہوئی ہے۔

معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کے متعین کردہ اہداف اگرچہ موجودہ معاشی اشاریوں کے مقابلے میں بڑے دیکھائی دیتے ہیں تاہم پالیسی کے تسلسل سے ان کے قریب پہنچا جاسکتا ہے۔

پاکستان کے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر اشفاق حسن کا کہنا تھا کہ ہر حکومت اہداف متعین کرتی ہے۔ لیکن اصل کام ان اہداف کے حصول کے لیے پالیسی بنانا اور اس پر عمل درآمد ہے۔

انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ معاشی پالیسی میں متعین کردہ اہداف زمینی حقائق سے بڑے دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم درست پالیسی اور موافق حالات اہداف کے قریب پہنچا سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کہ پاکستان اس وقت آئی ایم ایف کے پروگرام میں ہے۔ لہٰذا یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کیا حکومت کا یہ معاشی پلان آئی ایم ایف سے ہم آہنگی رکھتا ہے؟ یہ پاکستان کا اپنا معاشی ایجنڈا لگتا ہے اور وہ نہیں سمجھتے کے حکومت نے آئی ایم ایف سے اس پر بات کی ہوگی۔

سابق وفاقی وزیرِ خزانہ سلمان شاہ کہتے ہیں کہ ماضی میں بھی حکومتیں ایسے معاشی پلان لاتی رہی ہیں۔ ماضی کی حکومتیں بھی ایسی ہی باتیں کرتی رہی ہیں جیسے افتتاحی تقریب میں موجودہ وزیرِ اعظم اور وفاقی وزراء نے کی ہیں۔

انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’اُڑان پاکستان‘ کی تقریبِ اجراء میں سنجیدگی نہیں تھی اور اس میں بہت سے تضادات بھی تھے۔ معلوم نہیں ہوا کہ یہ حکومت کا منصوبہ ہے یا جماعت کا اور اسے وزارتِ خزانہ دیکھے گی یا وزارتِ منصوبہ بندی کا۔

سلمان شاہ نے کہا کہ اس معاشی پالیسی پر عمل درآمد کا میکنزم ابھی تک واضح نہیں ہوسکا ہے۔

معاشی امور کے ماہر فرخ سلیم کہتے ہیں کہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں جی ڈی پی ایک فی صد رہی ہے جب کہ مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق ملک کی آبادی 2.5 فی صد کی شرح سے بڑھ رہی ہے۔

انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ سوچتے رہے کہ ایک سال میں ہماری مجموعی قومی پیداوار ایک فی صد سے نیچے کیسے چلی گئیں تو دو چیزیں سامنے آئیں کی گزشتہ سال میں بجلی کی قیمت میں سو فی صد جب کہ گیس کی قیمت میں 800 فی صد اضافہ کیا گیا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ توانائی کی قیمتوں میں اضافے نے نہ صرف کاروبار کرنے کی لاگت میں اضافہ کیا ہے بلکہ تنخوا دار طبقے کی بجلی و گیس کے بلوں کی ادائیگی کے بعد کچھ اور خرچ کرنے کے استعداد ہی ختم کر دی ہے۔

فرخ سلیم کے بقول یہ وہ بنیادی وجہ ہے کہ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں جی ڈی پی بیٹھ گئی ہے۔

حکومت کی جانب سے اس پروگرام کے تحت جو اہداف مقرر کیے گئے ہیں ان میں سب سے پہلے برآمدات کو اگلے پانچ سال میں 60 ارب ڈالر سالانہ تک پہنچانا ہے۔

واضح رہے پاکستان کی برآمدات کا موجودہ حجم 30 ارب ڈالر سالانہ کے لگ بھگ ہے۔ اِسی طرح جی ڈی پی کی شرح نمو کو آئندہ پانچ برس میں چھ فی صد تک لے جانا ہے۔ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں شرح نمو ایک فی صد سے بھی کم رہی ہے۔

معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں جاری سیاسی بحران کے حل اور توانائی کی قیمتوں میں کمی لائے بغیر معیشت کے اہداف کا حصول ممکن نہیں ہوسکے گا۔

اشفاق حسن کہتے ہیں کہ پاکستان کی معاشی حالت گزشتہ دو برس میں ہیجانی کیفیت میں مبتلا تھی اس سے باہر نکل آئی ہے اور اب استحکام کی طرف بڑھنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ روپے کے مقابلے ڈالر کی قدر اپنی جگہ برقرار ہے جس سے مہنگائی میں کمی واقع ہوئی ہے اور اسٹیٹ بینک شرح سود کم کرنے پر مجبور ہوا ہے۔

اشفاق حسن کہتے ہیں کہ وزیرِ خزانہ تو یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ ان کی نظر میں شرح سود گنجائش موجود ہے جس سے لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں اس میں مزید کمی ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ صرف شرح سود میں کمی سے پاکستان کے بیرونی قرضوں میں پندرہ سو ارب روپے کی کمی واقع ہوگی اور بجٹ کے اہداف حاصل کرنے میں بھی آسانی ہوگی۔

اشفاق حسن نے کہا کہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں صنعتی ترقی بہت کم رہی ہے اور زراعت کی ترقی کا ہدف بھی حاصل نہیں ہوا ہے جس کے سبب مجموعی قومی پیداوار یعنی جی ڈی پی ایک فی صد ریکارڈ کی گئی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ معیشت میں بہتری کے اشاروں جے باوجود نجی شعبہ سرمایہ کاری کرنے کا اعتماد نہیں رکھتا ہے اور ابھی بھی حالات کے بہتر ہونے کا انتظار کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت اپنے معاشی اہداف اسی صورت حاصل کرسکتی ہے کہ ملک میں سیاسی انتشار کا ماحول ختم ہو۔

اشفاق حسن نے بقول اگر سیاسی مارا ماری رہی تو اہداف کا حصول اہداف ہی رہ جائے گا اور حقیقت نہیں بنیں گے۔

فرخ سلیم نے کہا کہ جب تک حکومت توانائی کی قیمت کو کم نہیں کرتی اس کے معاشی اہداف حاصل نہیں ہوسکتے۔

انہوں نے کہا کہ ایسے میں جب بھارت، بنگلہ دیش اور افغانستان میں فی یونٹ بجلی کی قیمت پاکستان سے بہت کم ہے تو ہماری صنعت نہیں چل سکے گی۔

وہ کہتے ہیں کہ اگر سستی توانائی کی فراہمی ممکن ہوپاتی ہے تو حکومت اپنے معاشی اہداف حاصل کرسکے گی اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو نتیجہ پہلی سہ ماہی جیسا ہی رہے گا۔

فرخ سلیم نے کہا کہ اُڑان پاکستان ایک امید ہے لیکن ہمیں حکمتِ عملی کی ضرورت ہے اور ہماری معیشت میں بہتری کی بنیاد سستی توانائی کی فراہمی ہے۔

سلمان شاہ نے کہا کہ پاکستان جب بھی ہم آئی ایم ایف کے پاس جاتا ہے تو ہمارے معاشی اہداف بہتر ہو جاتے ہیں اور کچھ استحکام آتا ہے۔ لیکن اس کے فوری بعد معیشت میں عدم توازن آنا شروع ہو جاتا ہے خاص طور پر ادائیگیوں کے توازن کو لے کے۔

وہ کہتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی برآمدی صنعت درآمدات پر انحصار کرتی ہے اور جب بھی ترقی ہوتی ہے پاکستان کی درآمدات برآمدات کے مقابلے بڑھ جاتی ہیں اور ادائیگیوں کا توازن پیدا ہو جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کو درست کرنے کے لیے وسیع اور جامع اصلاحات چاہئیں اور اُڑان پاکستان بھی یہی چاہتا ہے۔

تاہم سلمان شاہ کہتے ہیں کہ سوال یہ ہے کہ موجودہ حکومتی جماعت گزشتہ دہائیوں میں متعدد بار حکومت میں رہی ہے لیکن معاشی اصلاحات نہیں لاسکی ہے تو اب یہ توقع رکھنا کہ یہی لوگ اصلاحات لے آئیں گے اس کے لئے پالیسی پر عمل درآمد کا انتظار کرنا ہوگا۔



Source

RELATED ARTICLES

اپنی رائے کا اظہار کریں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

مقبول خبریں