|
پاکستان میں 8 فروری 2024 کو ہونے والے انتخابات نے کچھ روایتی سیاسی حریفوں کے درمیان فاصلوں کو کم کر دیا ہے، تو کچھ روایتی اتحادیوں کے درمیان فاصلوں کو بڑا دیا ہے۔
انتخابات سے پہلے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ مولانا فضل الرحمان اور عمران خان کی پارٹی کے درمیان گفتگو ہو گی مگر انتخابات کے بعد یہ انہونی ہوتے ہوئے دیکھی گئی۔
عام انتخابات کے بعد مسلم لیگ(ن) کے صدر شہباز شریف نے جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے اسلام آباد میں ملاقات کی اور انہیں مل کر حکومت بنانے کی پیشکش کی، مگر جے یو آئی کے سربراہ نے ان کی توقعات کے برعکس جواب دیتے ہوئے، اپوزیشن میں بیٹھنے کا عندیہ دیا تھا۔
جس کے بعد مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے طویل مشاورت کے بعد حکومت بنانے اور پاور شیئرنگ کے فارمولے کو حتمی شکل دی، جس کا باضابطہ اعلان سابق صدر آصف زرداری، سابق وزیر اعظم شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری نے ایک پریس کانفرنس میں کیا۔
21 فروری کو جے یو آئی کے سیکرٹری جنرل مولانا غفور حیدری نے جے یو آئی کے وفد کے ساتھ مسلم لیگ ن کے سینیٹر اسحاق ڈار سے ملاقات کی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ملاقات میں عبدالغفور حیدری کا کہنا تھا کہ جے یو آئی اور ن لیگ کم ازکم بلوچستان میں مل کر حکومت بنا سکتی ہیں۔ اس پر اسحاق ڈار نے کہا کہ ہم تو چاہتے تھے کہ مل کر چلا جائے لیکن مولانا آپ نے بہت دیر کر دی۔
سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا، ہم گزشتہ چار دن سے آپ سے رابطہ کر رہے تھے لیکن رابطہ نہیں ہوا۔ اب ہم نے پیپلزپارٹی کے ساتھ شراکت اقتدار کا معاہدہ کر لیا ہے۔ ن لیگ بلوچستان میں پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنانے والی ہے۔ مگر میں جے یو آئی کی پیشکش کو قیادت کے سامنے رکھوں گا۔
میڈیا میں جب یہ خبریں سامنے آئیں تو نون لیگ نے اس کی تردید کی
وائس آف امریکہ نے جے یو آئی کے ترجمان محمد اسلم غوری سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ کیا جے یو آئی وفاق اور صوبہ بلوچستان کی حکومت میں شامل ہونے کا ارادہ رکھتی ہے تو انہوں نے نفی میں جواب دیتے ہوئےکہا کہ مولانا غفور حیدری نے اسحاق ڈار سے ملاقات ان کی خواہش پر کی تھی۔
اسلم غوری نے مزید کہا کہ جے یو آئی پارلیمانی سیاست کو بھی خیرباد کہنے کا سوچ رہی ہے اس حوالے سے قیادت صوبائی تنظیموں کے ساتھ مشاورت کرنے اسلام آباد، پشاور، سندھ اور بلوچستان جا رہی ہے۔
جے یو آئی کے سینئر رہنما حافظ حسین احمد نےوائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نون لیگ نے بلوچستان میں حکومت سازی کے حوالے سے اپنی صوبائی قیادت سے بھی نہیں پوچھا اور پیپلزپارٹی کے ساتھ معاملات طے کر کے اس کا اعلان بھی کر دیا۔ بقول انکے”مجھے مشکل لگ رہا ہے کہ اس بار مسلم لیگ نون مولانا فضل الرحمان کو حکومت میں شامل کرنے کے لیے رضامند کر پائے گی۔”
مذہبی جماعتوں کو عرصہ دراز سے کور کرنے والے سینئر صحافی سبوخ سید نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے خیال ظاہرکیا کہ مولانا فضل الرحمان نے ابتدا میں جارحانہ انداز اس لیے اختیار کیا تھا تاکہ ان کی کچھ سیٹوں میں اضافہ ہو سکے کیوں کہ اس وقت ان کے بیٹے سمیت کچھ نشستوں کے نتائج آنا باقی تھے ۔
انہوں نے کہا،”میرا خیال یہ بھی ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے پریشر کی پالیسی اس لیے بھی اختیار کی کیونکہ انہیں ن لیگ سے بھی شکایتیں تھی۔ مولانا فضل الرحمان خود کوئی وزارت نہیں لینا چاہتے۔ ان کی خواہش صدر پاکستان کے عہدے کی تھی مگر دونوں جماعتوں نے مولانا سے ہاتھ کرتے ہوئے اپنا فیصلہ کر لیا میں سمجھتا ہوں کے مولانا کی سیاسی چال ان کو فائدہ نہیں دے پائی۔”
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس بار مسلم لیگ نواز کے لیے محمود خان اچکزئی، اختر مینگل، ڈاکٹر مالک بلوچ کو بھی راضی کرنا آسان نہیں ہوگا۔ وہ بلوچستان میں انتخابی دھاندلی کے خلاف احتجاجی تحریک چلا رہے ہیں۔
دوسری طرفن ون لیگ نہ صرف حکومت بنانے کے عمل میں مصروف ہے بلکہ پیپلز پارٹی کے ساتھ وفاق اور صوبہ بلوچستان، پنجاب میں حکومت سازی اور چاروں صوبوں میں وفاقی حکومت کے اختیارات میں آئینی عہدوں کی تقسیم کا معاہدہ بھی کر چکی ہے۔ اس کے بعدنون لیگ کے پاس پرانے اتحادیوں کو اپنے حصے کے عہدے دینے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
14 جماعتیں انتخاب جیت کر قومی اسمبلی میں پہنچی ہیں جن میں پی ٹی آئی کی سپورٹ سے جیتنے والے اراکین جو سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوئے ہیں، بھی شامل ہیں۔ قومی اسمبلی میں پہنچنے والی 14 جماعتوں میں سے اس وقت تک 6 جماعتیں مرکز میں مل کر حکومت بنانے کا اعلان کر چکی ہیں۔
سیاست پر نظر رکھنے والے سینئر صحافی اور ڈان اسلام آباد کے بیورو چیف عامر وسیم کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی میں ایک نشست جیتنے والی مسلم لیگ ضیا حکومتی اتحاد کا حصہ بن سکتی ہے مگر اس پر پیپلزپارٹی کے اعتراض کے بعد ایک دلچسپ صورت حال پیدا ہو سکتی ہے اور لوگ یہ کہ سکتے ہیں کہ پیپلزپارٹی جس ضیا الحق کو اپنی بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کا قاتل سمجھتی ہے ان کے نام سے بنی پارٹی کےساتھ پیپلزپارٹی کے ارکان بھی حکومتی بینچز پر بیٹھ گئے ہیں۔
عامر وسیم کا مزید کہنا تھا کہ اگر اعجاز الحق کے حکومتی اتحاد میں بیٹھنے پر پیپلزپارٹی نے اعتراض کیا اور اعجاز الحق اپوزیشن میں بیٹھ گئے تو حکومتی اتحاد سے زیادہ تعداد اپوزیشن میں شامل پارٹیوں کی ہو گی۔
جے یو آئی (ف) بی این پی مینگل، پختونخواہ ملی عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی ماضی میں بننے والی ن لیگ کی بیشتر حکومتوں میں اتحادی رہ چکی ہیں، یہ پانچ سیاسی جماعتیں اگرحکومتی اتحاد کا حصہ نہیں بنتیں تو حکومتی اتحاد میں شامل پارٹیوں سے زیادہ تعداد اپوزیشن میں شامل پارٹیوں کی ہو جائے گی۔جس سے نئی حکومت قومی حکومت کا تاثر نہیں دے پائے گی اور اس حکومت کو ملک کی اکثریتی پارٹیوں کی حکومت بھی نہیں کہا جا سکے گا۔