|
پاکستان کی حکومت نے نئے ویزا پروگرام کا اجرا کیا ہے اور اس الیکٹرانک ویزا (ای ویزا) پالیسی کے تحت سیاحوں اور کاروباری وفود کو سہولیات دی گئی ہیں۔
حکومت نے ویزا پالیسی میں تبدیلیاں کرتے ہوئے ویزا فیس سے مستثنیٰ ممالک کی تعداد بڑھا کر 126 کر دی ہے جب کہ خلیجی ممالک کے باشندوں کے لیے ‘آن ارائیول’ ویزے یعنی آمد پر ویزا حاصل کر سکنے کی سہولت دی گئی ہے۔
پاکستان طویل عرصے سے معاشی بحران کا سامنا کر رہا ہے جس کے سبب حکومت غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے کاروبار کرنے میں آسانی کے لیے پالیسیاں متعارف کروا رہی ہے۔
جن خلیجی ممالک کے باشندوں کو آن ارائیول ویزے کی سہولت دی گئی ہے ان میں بحرین، کویت، عمان، قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔
خلیجی ممالک کو آن ارائیول ویزے کا فیصلہ پاکستان کی جانب سے علاقائی اتحادیوں کے ساتھ گہرے اقتصادی اور تجارتی تعلقات استوار کرنے کی کوششوں کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔
حکام کے مطابق نئی ویزا پالیسی کا مقصد دنیا بھر کے سیاحوں کو سفری سہولت دینا اور انہیں عالمی سطح پر مشہور پاکستانی مہمان نوازی، کھانوں اور سیاحت کے بہترین مواقع کا تجربہ کرنے کے لیے خوش آمدید کہنا ہے۔
وزیر اطلاعات نے 14 اگست سے پالیسی کے اجرا کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے دروازے دنیا کے لیے کھولے جا رہے ہیں اور 126 ممالک سے پاکستان آنے والے سیاحوں کے لیے ویزا فیس ختم کر دی گئی ہے۔
پاکستان کے کاروباری اور سیاحت سے وابستہ افراد نے حکومت کی جانب سے ویزا پالیسی کو آسان بنانے کو سراہتے ہوئے اس اقدام کو ملک میں سیاحت اور سرمایہ کاری کے فروغ کی جانب ایک مثبت قدم قرار دیا ہے۔
‘پاکستانی ویزے کا حصول بہت مشکل تھا’
تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ دیرپا اور یقینی نتائج کے لیے حکومت کو سرمایہ کاری کے لیے آسانیان اور سیاحوں کے لیے سہولیات اور تحفظ کو یقینی بنانا ہو گا۔
پاکستان ٹریول مارٹ کے چیف ایگزیکٹو علی ہمدانی کہتے ہیں کہ پاکستانی ویزے کا حصول دنیا کے مشکل ترین ویزا میں سے ایک تھا جو ملک میں سیاحت اور کاروبار کی راہ میں رکاوٹ تھا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ویزا پالیسی میں آسانی حکومت کا اچھا اقدام ہے۔ لیکن اس سے یہ نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ فوری طور پر ملک میں غیر ملکی سیاحت اور سرمایہ کاری بڑھ جائے گی۔
وہ کہتے ہیں کہ ویزا پالیسی کے علاوہ حکومت کو سیاحوں کے لیے ساز گار ماحول اور تحفظ کو یقینی بنانا ہو گا۔
علی ہمدانی کے بقول وہ ایک ٹورازم ایکسپو کروا رہے ہیں جس کے لیے 30 ملکوں کے ٹورازم بورڈز کو دعوت دی گئی ہے۔ لیکن گزشتہ دنوں کراچی کو دنیا کے غیر محفوظ شہروں میں شامل کیے جانے کے بعد انہیں اس ایکسپو میں غیر ملکیوں کو لانے میں مشکل پیش آ رہی ہے۔
ان کے بقول ماضی میں ویزا پالیسی میں لائی گئی نرمی سے کوئی خاظر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے ہیں کیوں کہ بنیادی وجہ زمینی حقائق کو تبدیل نہ کرنا تھا جو سیاحوں کو سہولیات اور کاروبار کے لیے آسانیاں پیدا کر کے کیے جا سکتے ہیں۔
سیاحوں کی حفاظت کی یقین دہانیاں
خیال رہے کہ وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے پالیسی کے اجرا کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ غیر ملکی سیاحوں کی حفاظت کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں اور اس مقصد کے لیے ایک پورٹل بھی بنائی جا رہی ہے جس پر کوئی بھی سیاح خود کو رجسٹرد کرنے کی صورت میں نگرانی میں آ جائے گا۔
سیاحتی معیشت پر کام کرنے والی اور نیشنل ٹورازم کورآڈینیشن بورڈ کی رکن صدف خالد کہتی ہیں کہ حکومت کی جانب سے لائی گئی نئی ویزا پالیسی سیاحت کی صنعت سے وابستہ افراد اور ماہرین کا دیرینہ مطالبہ تھا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اس پالیسی سے سیاحوں کو پاکستان کا سفر کرنے میں آسانی ہو گی اور نجی سیاحتی شعبے کو فروغ ملے گا۔
وہ کہتی ہیں کہ ویزا پالیسی میں نرمی کے بعد دیگر ممالک کی سیاحت اور تجارت کے محکموں سے حکومتی سطح پر بات کرنے کی ضرورت ہو گی تاکہ اس پالیسی کے مقاصد حاصل کیے جا سکیں۔
صدف خالد نے بتایا کہ ماضی میں جن ممالک کے لیے ویزا آن آرائیول کی سہولت دی گئی اس سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بہت سے سیاح اور کاروباری وفود پاکستان کا دورہ کرتے رہے ہیں۔
تاہم اُن کے بقول ماضی میں حکومت کی جانب سے ویزا پالیسی میں نرمی پر ارکانِ پارلیمنٹ تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں اس کے نتیجے میں قومی سلامتی کو مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔
‘ویزا پالیسی نرم کرنے میں کچھ خطرات بھی ہوتے ہیں’
سابق وزیر داخلہ جنرل (ر) معین الدین حیدر کہتے ہیں کہ حالیہ دور میں جب کے بہت سے ممالک اپنی ویزا پالیسی میں سختی لارہے ہیں حکومت نے یہ قدم سوچ سمجھ کر اُٹھایا ہو گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ جب ویزا پالیسی کو نرم کیا جاتا ہے تو کچھ خطرات بھی ہوتے ہیں تاہم اگر نگرانی کے نظام کو بہتر رکھا جائے تو ان خطرات سے نمٹا جا سکتا ہے۔
معین الدین حیدر نے کہا کہ کوئی بھی فرد جب پاکستان آئے گا تو اس کے پاسپورٹ کے ذریعے اس کی تفیصلات سامنے آ جائیں گی اور اگر وہ کوئی بڑا مجرم یا نگرانی کی فہرست جیسے بلیک لسٹ یا اںٹرپول کی لسٹ میں ہے تو معلوم ہو جائے گا۔
وہ کہتے ہیں کہ حکومت کی نئی ویزا پالیسی کا مقصد سیاحوں اور کاروباری افراد کو سہولت دینا ہے تاکہ انہیں پاکستانی ویزا کے حصول کے لیے انتظار نہ کرنا پڑے۔
گزشتہ ماہ وفاقی کابینہ کے اجلاس بعد ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ ویزا پالیسی میں نرمی کے فیصلے سے پاکستان باہر سے آنے والوں کے لیے پرکشش مقام بن گیا ہے اور نئے ویزا پروگرام سے بیرونی سرمایہ کاری بڑھے گی۔