|
پاکستان کے صوبہ پنجاب کی وزیرِ اعلٰی مریم نواز کی جانب سے ترقیاتی منصوبوں کے افتتاح اور مختلف سرکاری اسکیموں میں اپنی تصاویر لگانے پر بعض حلقے تنقید کر رہے ہیں۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ مریم نواز کی قیادت میں پنجاب میں کئی نئے پروگرام شروع کیے گئے ہیں جب کہ ناقدین کہتے ہیں کہ پرانی اسکیموں کا کریڈٹ بھی مریم نواز لے رہی ہیں۔
ماہرین کہتے ہیں کہ مریم نواز بطور وزیرِ اعلٰی پنجاب اپنے والد اور چچا کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے عوام میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانا چاہتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق نواز شریف اور شہباز شریف نے پنجاب میں ترقیاتی منصوبوں کی بنیاد پر ہی وزارتِ عظمیٰ تک رسائی حاصل کی تھی۔
مریم نواز رواں برس وزیرِ اعلٰی منتخب ہونے کے بعد سے ہی خاصی متحرک دکھائی دیتی ہیں۔ پنجاب حکومت کا دعویٰ ہے کہ مریم نواز نے بہت مختصر وقت میں خواتین، نوجوانوں اور دیگر طبقات کے لیے کئی اسکیمیں متعارف کرائی ہیں۔
مریم نواز کی جانب سے متعارف کرائے گئے منصوبوں کی میڈیا میں تشہیر کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی بھرپور مہم چلائی جا رہی ہے۔
‘مرکز میں حکومت بننے کا انحصار پنجاب پر ہی ہے’
تجزیہ کار اور کالم نویس سلمان غنی کہتے ہیں کہ پنجاب پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ شہباز شریف، غلام حیدر وائیں، منظور وٹو اور عثمان بزدار سمیت جتنے بھی وزرائے اعلٰی آئے وہ سب یہاں متحرک رہے۔
اُن کے بقول سیاسی جماعتوں کو یہ ادراک ہے کہ اگر مرکز میں حکومت بنانی ہے تو اس کے لیے پنجاب میں اپنے قدم جمانا بہت ضروری ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے لیے سب سے بڑا چیلنج پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی مقبولیت ہے۔ ماضی میں یہاں مسلم لیگ (ن) کا راج تھا، لیکن 2018 اور پھر 2024 کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت میں کمی واقع ہوئی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سلمان غنی کا کہنا تھا کہ مریم نواز، نواز شریف کی سیاسی وارث ہیں اور نواز شریف کی غیر موجودگی میں وہ مسلم لیگ (ن) کی سیاست کو آگے بڑھاتی رہی ہیں۔ لہذٰا نواز شریف سمجھتے ہیں کہ بطور وزیرِ اعلٰی مریم نواز کی کامیابی جماعت کے لیے بہت ضروری ہے۔
سینئر تجزیہ کار اور کالم نویس سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ مریم نواز کو مستقبل کی وزیرِ اعظم کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ جن چیلنجز کا سامنا مسلم لیگ (ن) کو پنجاب میں ہے۔ اس طرح کے چیلنجز پی ٹی آئی کے لیے خیبرپختونخوا یا پیپلزپارٹی کے لیے سندھ میں نہیں ہیں۔
سلمان غنی کہتے ہیں کہ یوں تو مریم نواز صاحبہ کی تشہیر بہت زیادہ ہو رہی ہے، مگر دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ نواز شریف اور شہباز شریف کی طرح متحرک ہو کر کام کر رہی ہیں؟ کیا اُن کے اراکینِ اسمبلی اُن سے مطمئن ہیں؟ کیا وہ مقامی سطح پر لوگوں کے مسائل اور مشکلات کے حل کے لیے مؤثر اقدامات کر رہی ہیں؟
اُن کا کہنا تھا کہ اِس میں کوئی شک نہیں کہ اُنہیں کوریج بہت زیادہ مل رہی ہے۔ وہ نواز شریف کی بیٹی بھی ہیں اور جماعت کے اندر بھی اُنہی کا کردار ہے۔
سلمان غنی کی رائے میں مریم نواز کا اصل ہدف وزارتِ عظمٰی کا عہدہ ہے اور اسلام آباد کا راستہ لاہور سے ہو کر جاتا ہے۔ لاہور بہت اہم ہے۔ جب بھی صوبہ پنجاب کی سیاست کا تذکرہ ہوتا ہے تو لاہور ہمیشہ اہم ہوتا ہے۔
تشہیری مہم پر زور کیوں؟
سیاسی مبصرین کی رائے میں حکومت کی طرف سے مسلسل کہا جا رہا ہے کہ مہنگائی میں کمی واقع ہوئی ہے، لیکن حقیت یہ ہے کہ دودھ، سبزیوں اور اشیائے ضروریہ سمیت کسی بھی چیز میں کوئی کمی نہیں ہوئی ہے۔ مبصرین سمجھتے ہیں کہ حکومتیں کارکردگی سے چلتی ہیں نمود و نمائش سے نہیں ہے۔
سہیل وڑائچ کے بقول مسلم لیگ (ن) یہ سمجھتی ہے کہ تحریکِ انصاف سوشل میڈیا کا استعمال کر کے چیزوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہے، لہذٰا مریم نواز کی بطور وزیرِ اعلٰی تشہیری مہم بھی اسی لیے تیزی سے چلائی جا رہی ہے۔
اُن کے خیال میں مسلم لیگ (ن) شروع سے ہی اخبارات اور ٹی وی میں اشتہارات دینے میں دلچسپی رکھتی رہی ہے۔ یہ سلسلہ 1985 میں ہی شروع ہو گیا تھا جب نواز شریف پہلی مرتبہ پنجاب کے وزیرِ اعلٰی بنے تھے اور اس کے بعد شہباز شریف نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔
پرانے منصوبے نئے نام؟
پنجاب حکومت کے ادارے ڈائریکٹوریٹ جنرل آف پبلک ریلیشنز (ڈی جی پی آر) کے مطابق وزیرِ اعلٰی پنجاب مریم نواز نے حلف اُٹھانے کے بعد دو درجن کے قریب منصوبے شروع کیے ہیں جن میں سے کچھ پائپ لائن میں ہیں۔
وائس آف امریکہ نے جب اِن منصوبوں کے بارے میں تحقیق کی تو پتا چلا کہ بہت سے منصوبے پرانے ہیں یا ماضی کی حکومتوں کے ہیں جنہیں صرف نئے نام دیے گئے ہیں۔
ان میں ایئر ایمبولینس سروس کا منصوبہ بھی شامل ہے جس کی منظوری پنجاب کے سابق وزیرِ اعلٰی عثمان بزدار نے 2021 میں دی تھی۔ اسی طرح ناقدین کے مطابق مفت ‘وائی فائی سروس’ مستحق بچیوں کی شادی کے اخراجات اُٹھانے اور جہیز کا سامان دینے جیسے منصوبے بھی پنجاب میں پہلے سے ہی چل رہے تھے۔
مریم نواز ‘اسکول ملک پروگرام’ کو اپنا منصوبہ قرار دیتی ہیں جب کہ اسی نوعیت کے منصوبے پرویز الہٰی اور عثمان بزدار کے دور میں بھی مختلف ناموں سے شروع کیے گئے تھے۔
کلینک آن وہیل کو مریم نواز اپنا منصوبہ قرار دیتی ہیں جب کہ ماضی میں اِن کے چچا شہباز شریف نے فیلڈٖ اسپتال متعارف کرائے تھے جو عثمان بزدار کے دور میں بھی کام کرتے تھے جن کو اَب کلینک آن ویل کہا جاتا ہے۔ اِسی طرح ٹیلی میڈیسن منصوبے کا آغاز بھی شہباز شریف دور میں کیا گیا تھا۔
ماضی کی تمام صوبائی حکومتیں کسانوں کی فلاح کے لیے مختلف منصوبوں پر کام کرتی رہی ہیں جن میں کم و بیش تمام ہی حکومتیں کسانوں کے لیے ٹریکٹر اسکیمیں متعارف کراتی رہی ہیں۔ اِسی طرح آئی ٹی کے بہت سے منصوبے شہباز شریف اور پرویز الٰہی دور میں شروع کیے گئے جنہیں اب نام تبدیل کر کے چلایا جا رہا ہے۔
ماضی میں کم آمدنی والوں کے لیے آشیانہ اسکیمیں متعارف کرائی گئیں جنہیں اب ‘اپنا گھر اپنی چھت’ کا نام دیا گیا ہے
ذرائع ڈی جی پی آر کے مطابق موجودہ پنجاب حکومت اپنی تشہیر پر کروڑوں روپے خرچ کر رہی ہے۔ ڈی جی پی آر کے اعلٰی عہدیدار کے مطابق صرف ایک روز 29 اکتوبر کو تین کروڑ روپے کے اشتہارات پنجاب حکومت کی جانب سے دیے گئے ہیں۔
وائس آف امریکہ نے اس معاملے پر پنجاب کی وزیرِ اطلاعات اعظمیٰ بخاری اور مریم نواز کے میڈیا کوآرڈینیٹر کوثر کاظمی سے رابطہ کیا اور پیغام بھی چھوڑے، لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔