“میاں صاحب آئی لو یو، میاں جدو آوے گا لگ پتا جاوے گا۔”
یہ وہ نعرہ ہے جو تین مرتبہ وزیرِاعظم رہنے والے نواز شریف کے لیے لگتا رہا ہے اور ان کے جواب میں میاں نواز شریف والہانہ انداز میں ہاتھ ہلا کر جواب دیتے رہے ہیں۔
لیکن مطلوبہ انتخابی نتائج نہ آنے کے بعد میاں نواز شریف نے چوتھی مرتبہ وزیرِ اعظم بننے کے بجائے یہ کرسی ایک بار پھر اپنے بھائی شہباز شریف کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وہیں پنجاب کی حکمرانی اُنہوں نے مریم نواز کے سپرد کر دی ہے۔
نواز شریف کے اس فیصلے کے بعد پاکستان میں یہ چہ موگوئیاں شروع ہو گئی تھیں کہ ملکی سیاست میں چار دہائیوں تک سرگرم رہنے والے نواز شریف اب شاید سیاست سے کنارہ کش ہو رہے ہیں۔ تاہم مریم نواز نے اس تاثر کو رد کیا ہے، لیکن بعض ماہرین سمجھتے ہیں کہ نواز شریف فی الحال پیچھے بیٹھ کر معاملات دیکھنے کو ترجیح دیں گے۔
‘نواز شریف سیاست سے آؤٹ نہیں ہو سکتے’
سینئر تجزیہ کار اور صحافی سلمان غنی کہتے ہیں کہ پاکستان کی سیاست میں لوگ پھانسی چڑھ جاتے ہیں لیکن ان کی سیاست ختم نہیں ہوتی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کا مطلب نواز شریف ہے اور اب انہوں نے اپنی بیٹی کو وزیرِ اعلیٰ پنجاب بنوایا ہے اور بھائی کو وزیرِ اعظم بنوا دیا ہے۔
اُن کے بقول نواز شریف پاکستان کی سیاست سے آؤٹ نہیں ہو رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو آج تک سیاست سے آؤٹ نہیں کیا جا سکا۔ عمران خان جیل میں ہوتے ہوئے سیاست سے آؤٹ نہیں ہو سکے۔ اسی طرح نواز شریف بھی سیاست سے باہر نہیں ہوں گے۔
‘نواز شریف اور عمران خان جیسی شخصیات کی اب اسلام آباد میں گنجائش نہیں ہے’
سلمان غنی کہتے ہیں کہ نواز شریف کی واپسی کے بعد اسی بات کی گردان تھی کہ نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیرِ اعظم ہوں گے اور اس بارے میں اخبارات میں بڑے بڑے اشتہارات بھی لگوائے گئے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ اب ان کی اسلام آباد میں گنجائش نہیں رہی۔
اُن کے بقول اس وقت اسلام آباد میں جیسی حکومت کی ضرورت ہے وہاں عمران خان یا نواز شریف کی ضرورت نہیں ہے۔
سلمان غنی کے بقول اب وہاں شخصیات کے بجائے اسپیشل انویسٹمنٹ فیسی لیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) کا کردار ہو گا۔ نواز شریف دو تہائی اکثریت کے وزیراعظم رہ چکے ہیں، لہذا وہ ایسی حکومت کا حصہ نہیں بننا چاہ رہے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاروں کو سہولتیں فراہم کرنے کی غرض سے گزشتہ برس پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی اتحادی حکومت نے ایس آئی ایف سی قائم کی تھی جس میں فوج کو بھی شامل کیا گیا تھا۔
اسپیشل انویسٹمنٹ فیسی لیٹیشن کونسل کی اعلیٰ ترین (ایپکس) کمیٹی میں وزیر اعظم، چاروں وزرائے اعلیٰ اور چیف آف آرمی اسٹاف شامل ہیں۔
کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی میں وفاقی اورصوبائی کابینہ کے اراکین، بیوروکریسی کے بعض سینئر افسران اور فوج کا نمائندہ بھی شامل کیا گیا ہے۔ ایس آئی ایف سی کی تیسری کمیٹی عمل درآمد کمیٹی کہلاتی ہے جس میں وزیر اعظم کے خصوصی معاون اور فوج کا افسر موجود ہے۔
سلمان غنی نے دعویٰ کیا کہ نواز شریف نے تین دن قبل وفاق میں اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ لیکن پھر کچھ حلقے اس معاملے میں شامل ہوئے اور انہوں نے کہا کہ وہ مرکز میں پیپلز پارٹی پر اعتبار نہیں کر سکتے جس پر شہباز شریف دوبارہ متحرک ہوئے اور نواز شریف کو اپنا فیصلہ تبدیل کرنا پڑا۔
‘شہباز اور مریم ناکام ہوئے تو پھر نوازشریف آگے آئیں گے’
تجزیہ کار اور سینئر صحافی پرویز بشیر کہتے ہیں کہ نواز شریف سیاست میں رہیں گے یا نہیں اس کا فیصلہ وقت کرے گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے پرویز بشیر کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے انتخابی مہم میں اپنا بیانیہ محفوظ رکھا ہے۔ ماضی میں انہوں نے جو مؤقف اپنایا تھا اس کو بھی انہوں نے حالیہ انتخابی مہم میں ظاہر نہیں کیا۔
اُن کے بقول پاکستان میں آنے والی حکومت کانٹوں کی سیج ہے اور نہیں معلوم کہ یہ حکومت چلتی ہے یا نہیں۔
پرویز بشیر کہتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے عہدے پر مریم نواز کا آنا اس بات کی علامت نہیں کہ نواز شریف سیاست سے دست بردار ہو رہے ہیں۔
اُن کے بقول مریم نواز نے اچھی کارکردگی دکھائی تو نواز شریف سیاسی طور پر کنارہ کش ہو جائیں گے۔ لیکن اگر وہ ناکام ہوئیں تو نواز شریف ایک بار پھر میدان میں ہوں گے۔
سوشل میڈیا پر ردِعمل
مریم نواز کے بیان کے باوجود سوشل میڈیا پر بہت سے ورکرز کی روتے ہوئے تصاویر سامنے آ رہی ہیں جن میں وہ نواز شریف کے وزیرِ اعظم نہ بننے کے اعلان پر افسردہ ہیں۔
بعض صارفین شہباز شریف کو دوبارہ وزیرِ اعظم بنانے کے فیصلے پر بھی تنقید کر رہے ہیں۔ کچھ کا یہ مشورہ بھی ہے کہ اس سے اچھا ہوتا کہ مسلم لیگ (ن) اپوزیشن میں بیٹھ جاتی۔
سماجی رابطوں کی سائٹ ‘ایکس’ پر ‘پاکستان کو نواز دو’ کے ہیش ٹیگ سے ٹرینڈ بھی چل رہا ہے جس میں نوازشریف کو ہی وزیرِ اعظم بنانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
نوازشریف کی ابتدائی سیاست
لاہور میں ایک کاروباری خاندان میں پیدا ہونے والے نواز شریف کرکٹ اور اچھی گاڑیوں کے دلدادہ تھے۔ ملکی سیاست میں پہلی بار وہ اس وقت منظرِ عام پر آئے جب 80 کی دہائی میں اُنہیں پنجاب کا وزیرِ خزانہ بنایا گیا۔ بعدازاں 1985 سے 1990 تک وہ پنجاب کے وزیرِ اعلٰی رہے۔
سن 1990 میں بے نظیر بھٹو کی حکومت ختم ہونے کے بعد وہ پہلی مرتبہ پاکستان کے وزیرِاعظم بنے لیکن 1993 میں اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے کرپشن کے الزامات عائد کر کے ان کی حکومت برطرف کر دی۔
بعدازاں 1997 کے انتخابات میں وہ دو تہائی اکثریت کے ساتھ وزیرِ اعظم بنے، لیکن جنرل پرویز مشرف نے ڈھائی سال بعد ہی نواز حکومت کا تختہ اُلٹ دیا۔
نواز شریف 2008 کے انتخابات سے قبل نومبر 2007 میں پاکستان واپس آئے اور پھر 2013 میں تیسری مرتبہ ملک کے وزیرِ اعظم بنے۔ تاہم 2017 میں اُنہیں پھر نااہل قرار دے دیا گیا اور کرپشن مقدمات پر اُنہیں جیل جانا پڑا۔
نواز شریف 2019 میں علاج کی غرض سے نومبر 2019 میں لندن گئے اور پھر گزشتہ برس اکتوبر میں اُن کی واپسی ہوئی تھی۔