|
ویب ڈیسک — پاکستان کی ملٹری کورٹس نے نو مئی واقعات کے الزام میں گرفتار 25 ملزمان کو دو سے 10 برس تک قید کی سزائیں سنا دی ہیں جب کہ پاکستان تحریکِ انصاف نے فیصلے کو مسترد کر دیا ہے۔
پاکستان فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے ہفتے کو جاری بیان کے مطابق پہلے مرحلے میں کور کمانڈر ہاؤس، پی اے ایف بیس میانوالی، پنجاب رجمنٹل سینٹر مردان، بنوں کینٹ، چکدرہ قلعہ، ملتان کینٹ چیک پوسٹ، جی ایچ کیو اور آئی ایس پی آر آفس فیصل آباد حملہ کیس کے ملزمان کو سزائیں سنائی ہیں۔
آئی ایس پی آر کے مطابق ملزمان کو سزائیں تمام شواہد کی جانچ پڑتال اور مناسب قانونی کارروائی کی تکمیل کے بعد سنائی گئی ہیں۔ سزا پانے والے ملزمان کو قانونی تقاضے پورے کرنے کے لیے تمام قانونی حقوق فراہم کیے گئے۔
آئی ایس پی آر نے بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ 13 دسمبر کو سپریم کورٹ کے سات رکنی آئینی بینچ نے نو مئی کے زیرِ التوا مقدمات کے فیصلے سنانے کا حکم دیا تھا۔
جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے سات رکنی آئینی بینچ نے 13 دسمبر کو اپنے حکم نامے میں کہا تھا کہ جن ملزمان کو سزاؤں میں رعایت مل سکتی ہے، انہیں رعایت دے کر رہا کیا جائے۔ تاہم جن ملزمان کو رہا نہیں کیا جا سکتا انہیں جیلوں میں منتقل کیا جائے۔
آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ دیگر ملزمان کی سزاؤں کا اعلان اُن کے قانونی عمل مکمل ہوتے ہی کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ نو مئی 2023 کو سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں احتجاج ہوا تھا۔ اس دوران مشتعل افراد نے سرکاری و فوجی تنصیبات کو بھی نشانہ بنایا تھا۔
فوج کے ترجمان ادارے کا کہنا ہے کہ مکمل انصاف اُس وقت ہوگا جب نو مئی واقعات کے ماسٹر مائنڈ اور منصوبہ سازوں کو آئین و قانون کے مطابق سزا ملے گی۔
سزائیں مسترد کرتے ہیں، پی ٹی آئی کا ردِ عمل
پاکستان تحریکِ انصاف نے نو مئی واقعات پر فوجی عدالتوں کی جانب سے سویلینز کو سنائی گئی سزاؤں کو مسترد کر دیا ہے۔
رہنما پی ٹی آئی عمر ایوب نے سماجی رابطے کی سائٹ ایکس پر ایک بیان میں کہا ہے کہ پی ٹی آئی کے زیرِ حراست افراد کے خلاف فوجی عدالتوں کی سزائیں انصاف کے اصولوں کے منافی ہیں۔
ان کے بقول زیرِ حراست افراد عام شہری ہیں اور اُن پر فوجی عدالتوں میں مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا۔ فوجی عدالتیں قانونی طور پر ریاست کی عدالتی طاقت کی شراکت دار نہیں ہو سکتیں۔ ایسی عدالتوں کا قیام عام شہریوں سمیت عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہے۔
ملٹری کورٹس میں سویلین کے ٹرائل کا کیس ہے کیا؟
پاکستان میں نو مئی 2023 کے بعد ملک بھر میں ہونے والی ہنگامہ آرائی کے الزام میں سینکڑوں افراد کو گرفتار کیا گیا تھا جن میں سے بیش تر افراد کا تعلق پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) سے تھا۔
ان کارکنوں کی گرفتاری کے بعد سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی کہ سویلین افراد کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہیں ہو سکتا۔
بعد ازاں جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں اکتوبر 2023 میں پانچ رکنی بینچ نے فیصلہ دیا کہ سویلین افراد کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں نہیں ہو سکتا۔
اس فیصلے کو وفاقی حکومت، وزارتِ دفاع، پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان حکومت نے انٹرا کورٹ اپیلوں کے ذریعے چیلنج کیا۔ بعدازاں چھ ججوں کے بینچ نے 13 دسمبر 2023 کو یہ فیصلہ پانچ ایک کی اکثریت سے معطل کر دیا۔
انٹرا کورٹ اپیل پر 29 جنوری 2024 کو ہونے والی سماعت میں جسٹس سردار طارق مسعود نے یہ معاملہ تین ججوں پر مشتمل کمیٹی کے پاس بھیج دیا تاکہ اسے لارجر بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کیا جا سکے۔
بائیس مارچ 2024 کو سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلیں سماعت کے لیے مقرر کی گئی تھیں۔
سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے 20 مارچ کو فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ملٹری ٹرائل کے خلاف اپیلوں کی جلد سماعت کی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی تھی۔
سابق چیف جسٹس کی درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ اگر اپیل خارج کر دی گئی تو شہریوں کو بلا جواز کئی مہینوں تک فوجی حراست میں رہنا پڑے گا۔
رواں ماہ سپریم کورٹ میں سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی طرف سے 26 ویں آئینی ترمیم کی موجودگی میں سویلین کے ملٹری ٹرائل کے حوالے سے ایک درخواست دائر کی تھی جس میں آئینی بینچ کو یہ کیس سننے سے احتراز کا کہا گیا تھا۔ لیکن عدالت نے یہ درخواست مسترد کرتے ہوئے سابق چیف جسٹس پر 20 ہزار روپے جرمانہ عائد کر دیا تھا۔
بعدازاں آئینی بینچ نے 13 دسمبر کو ملٹری کورٹس کو فیصلہ سنانے کی اجازت دے دی تھی۔