Wednesday, December 25, 2024
ہومPakistanنو مئی 2023: رینجرز کے ذریعے عمران خان کی گرفتاری کے وقت...

نو مئی 2023: رینجرز کے ذریعے عمران خان کی گرفتاری کے وقت ہوا کیا تھا؟



  • نو مئی 2023 کو عمران خان کی ایک کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی تھی۔
  • رینجرز نے اس پیشی کے موقع پر پولیس اور سابق وزیرِ اعظم کے حفاظتی عملے کو ہٹا کر عمران خان کو حراست میں لیا تھا۔
  • عمران خان کو رینجرز اہلکاروں نے گھیرے میں لے کر ویگو ڈالے میں سوار کرایا اور پھر یہ گاڑی وہاں سے روانہ ہو گئی۔

اسلام آباد نو مئی 2023 کا دن ایک عام سا دن تھا۔ لیکن یہ پاکستان کی تاریخ کا اہم حصہ بننے جا رہا ہے۔ مجھے یہ معلوم نہیں تھا۔

اس روز بھی عام دنوں کی طرح گھر سے نکلا۔ پہلے ہی دفتر میں آگاہ کر دیا تھا کہ آج عمران خان کی عدالت میں پیشی ہے۔ کافی دن سے عمران خان لاہور اور اسلام آباد کی عدالتوں میں پیش ہو رہے تھے۔

سخت سیکیورٹی میں عمران خان کا چہرہ بھی نظر آنا بعض اوقات مشکل ہوتا تھا۔ سیکیورٹی سمیت دیگر مشکلات کے سبب سابق وزیرِ اعظم کی پیشی پر کوریج کرنا خاصا مشکل تھا۔ عدالتوں میں بھی رش حد سے زیادہ بڑھ جاتا تھا۔

اس دن بھی محسن شاہ نواز رانجھا کیس میں عمران خان کی پیشی تھی اور سابق وزیرِ اعظم نے دن 11 بجے کے قریب آنا تھا۔

میں اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچا تو کافی زیادہ رش تھا۔ حیرت انگیز طور پر آج سختی بھی زیادہ نظر آ رہی تھی جس گیٹ سے عمران خان نے داخل ہونا تھا وہ تو مکمل طور پر بند تھا ہی، لیکن جس گیٹ سے وکلا، سائلین اور صحافی داخل ہوتے تھے وہاں بھی پولیس کی بھاری نفری موجود تھی۔ اس دروازے سے داخل ہونے والے ہر شخص کی تلاشی لی جا رہی تھی۔

میرا نام معمول کی کوریج کرنے والے صحافیوں کی فہرست میں شامل تھا۔ اس لیے شناخت کے بعد اندر جانے دیا گیا۔ حیرت اس بات پر ہو رہی تھی کہ یہ تمام پولیس اہلکار ہم صحافیوں کو جانتے تھے۔ لیکن اس دن ہمارے دفتری کارڈ بھی دیکھ رہے تھے۔ خیر اندر پہنچے تو معمول کے مطابق پولیس ہی پولیس ہر طرف نظر آ رہی تھی۔

ایک پولیس افسر سے غیر معمولی صورتِ حال سے متعلق استفسار کیا تو وہ ہنستے ہوئے بولے کہ جو بھی کرنا ہے، وہ کرنے والوں نے کرنا ہے۔ ہمارا کیا تعلق؟

پولیس افسر کے اس جواب سے چونکا کہ آج کچھ مختلف ہونے جا رہا ہے۔

خیر سابق وزیرِ اعظم عمران خان کا قافلہ پہنچا تو صرف ایک گاڑی کو عدالتی احاطے کے اندر آنے کی اجازت دی گئی جس میں عمران خان سوار تھے۔

عمران خان کے محافظوں نے گاڑی سے باہر آتے ہی انہیں گھیر لیا۔ اردگرد بلٹ پروف شیلڈز لگا کر ان کا سر بھی کور کر لیا گیا۔

عمران خان وہیل چیئر پر عدالت میں بائیو میٹرک کرانے کے لیے آگے بڑھ گئے۔

اس دوران صرف چند ایک صحافی ہی وہاں موجود تھے۔ کیوں کہ زیادہ تر عدالت میں رش کے ڈر کی وجہ سے پہلے ہی کمرۂ عدالت میں جا چکے تھے۔

میں عمران خان کے محافظوں کے پیچھے چلتا ہوا فوٹیج بناتا رہا۔ اس دوران عمران خان کے محافظوں نے ایک رپورٹر کے موبائل پر ہاتھ مارا اور گرا دیا جس پر دونوں کے درمیان تلخ کلامی ہوئی۔

عدالت میں بائیو میٹرک آفس کے ساتھ ہی پرانی ہائی کورٹ کا کیفے ٹیریا اور فوٹو اسٹیٹ کی چند دکانیں تھیں اور ان کے باہر کوریڈور سا تھا۔

عمران خان اپنے محافظوں کے ساتھ بائیو میٹرک آفس میں پہنچے اور ہم بھی ان کے پیچھے آفس سے باہر موجود تھے کہ اچانک وہاں رینجرز کے درجنوں اہلکار پہنچ گئے۔ انہوں نے اس راہداری میں قطاریں بنا لیں۔

رینجرز اہلکاروں نے پولیس کو پیچھے ہٹا دیا۔ ان اہلکاروں کے ہاتھوں میں حفاظتی شیلڈز اور ڈنڈے تھے۔ بعض کے ہاتھوں میں ڈنڈوں کے بجائے کسی محلول کی بوتل تھی۔

یہ صورتِ حال دیکھ کر حالات خراب ہونے کا اندازہ ہوا اور میں چند قدم کے فاصلے پر ہائی کورٹ کے دفاتر کے باہر آگیا۔ اتنی دیر میں بائیو میٹرک آفس کے شیشے چکنا چور ہونے اور پھر دروازے ٹوٹنے کی آوازیں آنے لگیں۔

رینجرز کے اہلکاروں نے وہاں موجود تمام وکلا، صحافیوں اور عمران خان کے محافظوں پر تیزی سے ڈنڈے برسانا اور اسپرے کرنا شروع کر دیا۔

رینجرز اہلکاروں کی جانب سے یہ اسپرے براہِ راست آنکھوں پر کیا جا رہا تھا جس سے متاثرہ شخص کچھ دیر کے لیے دیکھنے سے محروم ہو جاتا۔

کمرے کے اندر عمران خان کے محافظوں نے مزاحمت کی تو رینجرز کے اہلکاروں نے ان کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ان سے سختی سے نمٹا جس کے بعد ایک اہلکار نے دروازے کا ایک حصہ توڑ دیا اور ہاتھ اندر ڈال کر لاک کھولا جس کے بعد رینجرز کے کئی اہلکار اندر داخل ہوئے اور آوازیں بلند سے بلند تر ہونے لگیں۔

اس دوران رینجرز اہلکار قریب آنے کی کوشش کرنے والوں کو ڈنڈوں سے دور رکھتے رہے۔

اسلام آباد سے قومی اسمبلی کے سابق رکن علی نواز اعوان میرے قریب کھڑے تھے۔ میں نے موبائل کے کیمرے پر جب ان سے عمران خان کے بارے میں پوچھا تو انہوں رندھی ہوئی آواز میں کہا کہ عمران خان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

میں اس کے بعد عدالت کے باہر موجود دفاتر کی ان لمحات کی فوٹیج بناتا رہا اور کچھ ہی دیر میں ایک ہجوم باہر آیا اور دوڑتا ہوا عقب کی جانب کھڑے سیاہ ویگو ڈالے کی طرف بڑھا۔

اس دوران میں نے موبائل کے کیمرے میں عمران خان کی ایک جھلک دیکھی جنہیں رینجرز اہلکار چاروں طرف سے گھیرے میں لے کر ویگو ڈالے کی طرف جا رہے تھے اور کچھ سیکنڈز میں ہی عمران خان کو اس میں سوار کرانے کے بعد رینجرز کی یہ گاڑی وہاں سے روانہ ہو گئی۔

اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ آج ایک سال مکمل ہونے پر سب کے سامنے ہے۔

اس وقت کی سب سے بڑی خبر یہ تھی کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان گرفتار ہو گئے ہیں۔ لیکن مبصرین کے مطابق ان کی گرفتاری پر سامنے آنے والا شدید ردِ عمل سب کی توقعات سے زیادہ تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد اختیار کیا گیا اپنا مؤقف مسلسل دہرا رہے ہیں۔ دوسری جانب ایک سال بعد اسٹیبلشمنٹ کے مؤقف میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی۔



Source

RELATED ARTICLES

اپنی رائے کا اظہار کریں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

مقبول خبریں