|
پاکستانی حکام نے منگل کو بتایا کہ عید الفطر کی تعطیلات سے قبل ملک بھر کی مساجد اور بازاروں میں ایک لاکھ سے زیادہ پولیس اور نیم فوجی دستے تعینات کر دیے گئے ہیں۔ افغانستان میں بھی عید الفطر کے موقع پر فورسز پوری طرح الرٹ ہیں۔
عید الفطر، پاکستان میں چاند نظر آنے کے بعد بدھ کو منائی جائے گی۔ جس کے دوران ملک میں تین دن کی تعطیل ہے۔
اگرچہ ماضی میں پاکستان میں عید کے دوران حملے شاذ و نادر ہی ہوتے ہیں، تاہم انٹیلیجنس ایجنسیوں نے وزارت داخلہ کو خبر دارکیا ہےکہ عسکریت پسند اس تہوار کا استعمال عام شہریوں، سرکاری اور فوجی عمارتوں اور پولیس کو نشانہ بنانے کے لیے کر سکتے ہیں۔
ملک میں حالیہ برسوں میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جن کی زیادہ تر ذمہ داری پاکستانی طالبان اور ان علیحدگی پسندوں نے قبول کی ہے جو بنیادی طور پر صوبہ بلوچستان سے کام کرتے ہیں۔
ان جگہوں پر بھی سیکورٹی بڑھا دی گئی تھی جہاں اعلیٰ شخصیات کی عید کی نماز ادا کرنے کی توقع ہے۔
افغانستان
وزارت داخلہ کے طالبان کے ترجمان عبدالمتین قانی نے کہا کہ افغانستان میں عید الفطر کے موقع پر سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے فورسز پوری طرح الرٹ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سیکورٹی فورسز کو مساجد سمیت تمام پرہجوم علاقوں میں تعینات کیا جائے گا۔
اس کے علاوہ دارالحکومت کابل میں پولیس چیف کے دفتر نے شہریوں سے درخواست کی ہے کہ وہ آتش بازی سے اور اسی طرح کسی اور طریقے سے امن و امان کو خراب کرنے سے گریز کریں۔
اسلام آباد میں قائم پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کنفلیکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کے ایک سینئر دفاعی تجزیہ کار اور منیجنگ ڈائریکٹر عبداللہ خان نے کہا کہ ان کے پاس ممکنہ حملوں کے بارے میں کوئی خاص معلومات نہیں ہیں، لیکن “عسکریت پسند نرم اہداف کو نشانہ بنا سکتے ہیں، کیونکہ بڑی تعداد میں لوگ عیدکی نماز مساجد اور کھلی جگہوں پر ادا کرتے ہیں۔
منگل کو مختلف بازاروں میں لوگوں نے معمول کے مطابق خریداری کی، خواتین نے اپنے اور اپنے بچوں کے لیے چوڑیاں، زیورات اور کپڑے خریدے۔
پنجاب پولیس کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق، سیکیورٹی پلان کے تحت 52,000 سے زیادہ پولیس کو مساجد میں تعینات کیا گیا تھا جس کے تحت صوبائی دارالحکومت لاہور میں تقریباً 8,000 پولیس اہلکاروں کو حساس مقامات اور بازاروں میں بھیجا گیا تھا۔
پنجاب ملک کا سب سے زیادہ آبادی والا صوبہ اور وزیر اعظم شہباز شریف کا آبائی شہر ہے، جنہیں مارچ میں پاکستان کی قومی اسمبلی میں قانون سازوں نے احتجاج اور انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے درمیان منتخب کیا تھا۔
اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات اے پی سے لی گئی ہیں۔