پاکستان اور ایران کی جانب سے ایک دوسرے کی حدود میں حملوں کے معاملے پر سوشل میڈیا پر بھی بحث جاری ہے۔ بعض بلوج قوم پرستوں نے الزام عائد کیا ہے کہ دونوں ریاستوں نے سرحد کے اطراف بلوچ قومیت سے تعلق رکھنے والے افراد کو نشانہ بنایا، تاہم دونوں حکومتوں کا دعویٰ ہے کہ “دہشت گردوں” کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔
واضح رہے کہ ایران کی جانب سے منگل کی شب بلوچستان کے ضلع پنجگور کے سبز کوہ نامی گاؤں میں میزائل حملہ کیا گیا تھا، پاکستان نے تصدیق کی تھی کہ حملے میں دو بچے ہلاک جب کہ تین بچیاں زخمی ہوئیں۔
ایرانی حملے کے بعد پاکستان نے ایران کے صوبے سیستان بلوچستان میں ڈرونز، میزائلز اور راکٹس کے ذریعے کارروائی کی جس میں ایرانی حکام کے مطابق خواتین اور بچوں سمیت نو افراد ہلاک ہوئے۔
پاکستان ایران کے درمیان حالیہ کشیدگی کے بعد جمعے کو پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی کا ایک اجلاس ہوا۔ اجلاس کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ایران میں ’’آپریشن مرگ بر سرمچار‘‘ غیر حکومتی جگہوں پر مقیم پاکستانی نژاد بلوچ دہشت گردوں کے خلاف کامیابی کے ساتھ انجام دیا گیا۔
واضح رہے کہ حال ہی میں افغانستان کے لیے ایران کے نمائندۂ خصوصی حسن کاظمی قمی نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ حسن کاظمی نے دورے کے دوران نگراں وزیرِ خارجہ جلیل عباس جیلانی سمیت دیگر حکام سے ملاقاتیں کی تھیں۔
حسن کاظمی کے دورے کے اختتام کے فوری بعد ہی ایران نے پاکستان میں کارروائی کی جب کہ اسی روز ایران کے وزیرِ خارجہ نے ڈیووس میں نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ سے ملاقات بھی کی تھی۔
ادھر بلوچستان میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم کارکن ماہ رنگ بلوچ نے الزام عائد کیا ہے کہ ایران اور پاکستان نے سیکیورٹی اور خود مختاری کے نام پر بلوچ عوام کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘ایکس’ (سابقہ ٹوئٹر) پر اُن کا کہنا تھا کہ اپنی سلامتی اور خود مختاری کے تحفظ کے لیے دونوں ممالک بلوچوں پر بلاامتیاز میزائل داغ رہے ہیں جس کی وجہ سے سرحد کے دونوں جانب بلوچوں کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔
نیشنل ڈیمو کریٹک موومنٹ کے رہنما اور سابق سینیٹر افراسیاب خٹک کہتے ہیں کہ پاکستان اور ایران میں ہونے والے حملوں کی ویڈیوز اور تصاویر میں غریب بلوچوں کے تباہ ہونے والے کچے مکانات دکھائے گئے ہیں جنہیں ان ریاستوں نے دہشت گرد قرار دیا۔
انسانی حقوق کی کارکن ماروی سرمد نے دعویٰ کیا کہ بہت سے لوگ اب یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کو ‘جیش العدل’ کے ٹھکانے پر ایرانی کارروائی کا پہلے سے علم تھا۔
اُن کا کہنا تھا کہ دونوں حکومتیں یہ دعویٰ کر رہی ہیں کہ ‘دہشت گردوں’ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ لیکن درحقیقت دونوں جانب عورتیں اور بچے مارے گئے ہیں۔
دوسری جانب رزاق سربازی نامی صارف نے ‘ایکس’ پر ایرانی اکاؤنٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایران، پاکستان کا بلوچ سرحدی آبادیوں پر حملہ طے شدہ تھا۔
اُنہوں نے الزام لگایا کہ بلوچوں کو نشانہ بنانے کے لیے دونوں ملکوں میں ہم آہنگی موجود تھی، ایرانی مجلس کے سابق رکن حمید رسایی، ایرانی سیکیورٹی اداروں سے قربت رکھنے والی صحافی آمنہ سادات نے بھی اعتراف کیا ہے کہ “ایران نے پاکستان کو حملے کی اجازت دی تھی۔”
پیپلزپارٹی کے رہنما سینیٹر فرحت اللہ بابر نے ‘ایکس’ پر سوال اُٹھایا کہ اگر ایران نے غلطی کی تو کیا پھر پاکستان نے بھی غلط ہدف کو نشانہ بنایا؟
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کی بھارت، افغانستان اور اب ایران کے ساتھ بھی سرحدوں میں کشیدگی ہے جب کہ ایسے واقعات سے نسلی اور سماجی تقسیم مزید بڑھ جاتی ہے۔
پشاور یونیورسٹی میں انٹرنیشنل ریلیشنز کے سابق پروفیسر اعجاز خان نے رزاق سربازی کے اکاؤنٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ جیسے کو تیسا والا معاملہ ہے، یعنی “آپ میرے بلوچوں کو ماریں، میں آپ کے بلوچوں کو ماروں گا۔”
اسلام آباد سے وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق بلوچ یک جہتی کمیٹی کی رکن سمی دین بلوچ نے ایک بیان میں کہا کہ پہلے ایران کی جانب سے میزائل حملہ ہوا جو بلوچ علاقوں میں عام آبادی پر ہوا اور اس میں دو کمسن بچے حملے کا نشانہ بنے۔
اُن کے بقول جوابی کارروائی میں پاکستان کی طرف سے ڈرون حملہ بھی بلوچوں کے علاقوں میں کیا گیا۔ دونوں طرف دہشت گروں کے خلاف کارروائیوں کا دعویٰ کیا گیا لیکن دونوں اطراف بلوچ خواتین اور کمسن بچے مارے گئے۔
بلوچ یک جہتی کمیٹی کے رکن سلام بلوچ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے اس وقت احتجاج کی بنیاد ہی بلوچوں کی مشکلات ہیں۔
اُن کے بقول ہم اسی معاملے کو لے کر اسلام آباد آئے ہیں۔ وہاں بلوچستان میں پہلے ہی مسائل تھے اور اب ایران نے دو بچوں کو ہلاک کیا جو بلوچ تھے جب پاکستان نے جوابی حملہ کیا تو اس میں بھی بلوچ مارے گئے۔
سلام بلوچ کا کہنا تھا کہ دونوں حملوں میں بلوچ مارے گئے اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ان حملوں کا دفاع کیا جا رہا ہے۔
سلام بلوچ کا کہنا تھا کہ ایران کے ساتھ سرحد کے اطراف بلوچوں کی رشتہ داریاں ہیں اور ان کا آنا جانا لگا رہتا ہے جن لوگوں کے رشتہ دار غائب ہوئے وہی لوگ پناہ کے لیے ایران میں گئے اور اب انہیں وہاں بھی ہلاک کر دیا گیا ہے۔
سینئر صحافی اور بلوچستان کے امور پر نظر رکھنے والے بلال ڈار اس بات سے متفق نہیں اور ان کا کہنا ہے کہ بلوچ مظاہرین کا موجودہ بیانیہ صرف ہمدردیاں سمیٹنے کے لیے ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان نے جو حملہ کیا وہ انہی عناصر کے خلاف ہے جنہوں نے ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا ہے۔
اُن کے بقول اگر بلوچ چاہتے ہیں کہ ان کی بات کو سنا جائے، ان کے مسائل کو حل کیا جائے تو اس کا واحد حل یہ ہے کہ وہ قومیت پرستی کو ترک کر کے سیاسی جدوجہد کا راستہ اپنائیں اور اپنے سیاست دانوں سے سوال کریں اور تعلیم کے ذریعے شعور دیں۔
بلال ڈار کا کہنا تھا کہ پاکستان نے جوابی کارروائی کی لیکن پاکستان کو ایک عرصہ سے علم تھا کہ یہ لوگ ایران میں بیٹھے ہوئے ہیں اور وہاں بیٹھ کر ملک میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث تھے۔
‘ماہ رنگ بلوچ پاکستانی عوام کو گمراہ کر رہی ہیں’
دوسری جانب بلوچستان کے نگراں وزیرِ اطلاعات جان اچکزئی نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج نے پاکستان کی خود مختاری اور قومی سلامتی کو چیلنج کرنے والوں کو بھرپور جواب دیا ہے۔
جمعے کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے جان اچکزئی نے ماہ رنگ بلوچ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ماہ رنگ بلوچ پاکستان کے عوام کو گمراہ کرنے کی ناکام کوشش کر رہی ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ ماہ رنگ بلوچ نے اپنی پریس کانفرنس میں خود دعویٰ کیا کہ ایران میں مرنے والے “دہشت گردوں” کے لواحقین اسلام آباد کے کیمپ میں موجود ہیں۔