|
سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کے اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد جہاں ایک طرف بھارت اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں تناؤ پایا جاتا ہے تو وہیں اسلام آباد اور ڈھاکہ کے درمیان دوطرفہ تعلقات بہتر بنانے کے عزم کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
حالیہ عرصے میں بنگلہ دیش کی نئی عبوری حکومت سمیت اہم سیاسی جماعتوں نے پاکستان کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت میں خارجہ اُمور کے مشیر توحید حسین نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اُن کا ملک پاکستان کے ساتھ دُشمنی نہیں چاہتا بلکہ سب کے ساتھ دوستی کے خواہاں ہیں۔
پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے نہ صرف بنگلہ دیش کے عبوری سربراہ محمد یونس کو مبارکباد دی تھی بلکہ بہتر تعلقات کی خواہش کا بھی اظہار کیا تھا۔
شیخ حسینہ کی جماعت عوامی لیگ کے 15 سالہ اقتدار کے دوران پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں سرد مہری رہی ہے۔
بنگلہ دیش کے حکومتی رہنماؤں کے بیانات پر تبصرہ کرتے ہوئے پاکستان کے دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے کہا کہ پاکستان، بنگلہ دیش کے ساتھ بہتر تعلقات کا خواہاں رہا ہے اور اس سے جنوبی ایشیائی ممالک کی تنظیم ‘سارک’ کو آگے بڑھانے میں بھی مدد ملے گی۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش کے موجودہ حالات میں پاکستان کے لیے دوطرفہ تعلقات میں بہتری کے مواقع موجود ہیں تاہم اسلام آباد کو اس ضمن میں جلد بازی سے گریز کرنا ہو گا۔
‘یہ مثبت پیش رفت ہے’
بنگلہ دیش میں پاکستان کے سفیر رہنے والے رفیع الزمان صدیقی کہتے ہیں کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے رہنماؤں کی جانب سے آنے والے بیانات مثبت پیش رفت ہیں جو کہ دونوں ملکوں کے تعلقات کو نئے دور کی طرف لے جائیں گے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ شیخ حسینہ کے دور میں تو پاکستانیوں کو ویزہ تک ہی نہیں ملا کرتا تھا اور اگر کوئی پاکستانی ڈھاکہ پہنچ جاتا تھا تو اسے ایئرپورٹ پر ہی کافی تنگ کیا جاتا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ ویزے کا معاملہ عام طور پر وزیرِ اعظم کے سامنے نہیں اٹھایا جاتا۔ لیکن اپنے سفارتی دور میں انہوں نے شیخ حسینہ کے سامنے اس معاملے کو اٹھایا تھا۔ لیکن اس کے باوجود بہتری نہیں آ سکی تھی۔
رفیع الزمان صدیقی نے کہا کہ بنگلہ دیش کی نئی حکومت نے پاکستانیوں کے لیے ویزے میں نرمی کا اعلان کیا ہے جو کہ دوطرفہ تعلقات کو آگے لے جانے کی جانب پہلا قدم ہے۔
انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش کی نئی انتظامیہ کو احساس ہے کہ پاکستان سے تعلقات میں بہتری لانا ہو گی۔
‘اسلام آباد کو جلدبازی نہیں کرنی چاہیے’
خطے کے امور پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگار اکرام سہگل کہتے ہیں کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان ابتدائی رابطے خوش آئند ہیں۔ لیکن اسلام آباد کو جلد بازی نہیں کرنی چاہیے جس طرح کابل میں طالبان حکومت آنے کے بعد کی گئی تھی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد کابل کے ہوٹل میں چائے کا کپ تھامے ہمارے انٹیلی جینس چیف کی تصویر کی ہم آج بھی قیمت چکا رہے ہیں۔
واضح رہے کہ اگست 2021 میں طالبان کے کابل پر کنٹرول کے بعد اس وقت آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل فیض حمید نے کابل کا دورہ کیا تھا۔ اس دوران کابل کے ہوٹل میں چائے کا کپ تھامے اُن کی تصویر سامنے آئی تھی اور اس دوران مختصر گفتگو میں اُنہوں نے کہا تھا کہ “سب ٹھیک ہو جائے گا۔”
اکرام سہگل کے بقول بنگلہ دیش کی پاکستان سے علیحدگی کے بعد جنرل ضیا الرحمٰن کے صدر بننے اور 1978 میں ان کے دورۂ پاکستان سے دوطرفہ تعلقات میں خاصی بہتری آئی تھی جو کہ شیخ حسینہ کے پہلے دور اقتدار تک برقرار رہے۔
اکرام سہگل کہتے ہیں کہ شیخ حسینہ کے پہلے دور میں انہوں نے اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ ڈھاکہ کا دورہ کیا تھا جس میں دونوں طرف سے اچھے تعلقات کی عکاسی ہوئی تھی۔
اکرام سہگل نے بتایا کہ دونوں ملکوں کے تعلقات اتنے اچھے تھے کہ وہ خود 10 سال تک ڈھاکہ کے نیشنل ڈیفنس کالج میں لیکچر کے لیے جاتے رہے ہیں۔
‘بھارت کے اثرو رسوخ سے پاکستان، بنگلہ دیش تعلقات متاثر ہوئے’
انہوں نے کہا کہ شیخ حسینہ کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد بھارت کا اثر و رسوخ بڑھنا شروع ہو گیا جس کے نتیجے میں پاکستان کے ساتھ تعلقات متاثر ہوئے۔
اکرام سہگل کہتے ہیں کہ پروپیگنڈے کے نتیجے میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان حکومتی سطح پر تعلقات کتنے بھی متاثر ہوئے تاہم عوامی سطح پر نفرت نہیں پائی جاتی۔
اُن کے بقول یہی وجہ تھی کہ بنگلہ دیش کی حکومت نے کرکٹ اور ہاکی کے میچز میں جھنڈا لانے پر پابندی لگا دی تھی کیوں کہ بنگالی عوام پاکستان کا جھنڈا میدان میں لہراتے تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات میں حالیہ گرمجوشی کے اثرات بھارت کے غیر ضروری اثر و رسوخ کے ردعمل کا اظہار بھی ہے۔
اکرام سہگل کے بقول بنگلہ دیش کے نوجوان بھارت کے پاکستان مخالف پروپیگنڈے کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں اور بنگلہ دیش کے موجودہ اور آنے والی حکومت بھی اگر پاکستان کی حامی نہیں تو مخالف نہیں ہو گی۔
پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تعاون کے کون سے مواقع ہیں؟
پاکستان اور بنگلہ دیش میں دوطرفہ تعلقات میں بہتری کے امکانات کیا ہیں اور کن شعبوں میں فوری طور پر تعاون کو فروغ دیا جا سکتا ہے؟ اس بارے میں تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کو بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات کو بھارت کے تناظر کے بجائے دوطرفہ طور پر بڑھانا چاہیے۔
رفیع الزمان صدیقی کہتے ہیں کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان سیکریٹری خارجہ کی سطح پر دوطرفہ امور پر بات چیت کا ایک فورم موجود ہے جس کا اجلاس کئی دہائیوں سے نہیں ہوا ہے اور دونوں ملکوں کو چاہیے کہ دوطرفہ امور کو بڑھانے کے لیے اس فورم کو بحال کریں۔
انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ خطے کے حالات ملکوں کے دوطرفہ تعلقات پر اثرانداز ہوتے ہیں تاہم پاکستان کو بنگلہ دیش سے تعلقات کو بھارت کے نتاظر میں لے کر نہیں چلنا چاہیے۔
وہ کہتے ہیں کہ بنگلہ دیش کی جانب سے ویزہ پالیسی میں نرمی کے اعلان کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان ثقافتی، پارلیمانی، کاروباری اور طلبہ کے وفود کا تبادلہ ہونا چاہیے تاکہ عوامی سطح پر تعلقات مضبوط ہوں۔
رفیع الزمان نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان گزشتہ دو دہائیوں سے اعلی سطح کا دورہ نہیں ہوا ہے اور دوطرفہ تعلقات کو نیے دور میں لے جانے کے لیے ضروری ہو گا کہ صدر یا وزیرِ اعظم کی سطح پر دورے کیے جائیں۔
اکرام سہگل کہتے ہیں کہ دونوں ملک اگر صرف ویزہ کی پابندی ختم کردیں اور براہ راست پروازوں کا آغاز کردیں تو تعلقات میں بہت بہتری آ جائے گی۔
وہ کہتے ہیں کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کو چاہیے کہ تجارت پر کسٹم ڈیوٹی ختم کردیں تو صرف ان چند اقدامات سے ہی دونوں ملکوں کے تعلقات 1971 سے پہلے کی سطح پر پہنچ سکتے ہیں۔
سفارتی ذرائع بتاتے ہیں کہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس کے موقع پر نیویارک میں پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف کی بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس سے ملاقات ہو سکتی ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے پاکستان کے ہائی کمشنر احمد معروف نے بنگلہ دیش کے وزیر داخلہ جہانگیر عالم چودھری سے ڈھاکہ میں ملاقات کی اور دو طرفہ تعلقات پر بات چیت کی جس میں دونوں فریقوں نے باہمی ویزا انتظامات کو آسان بنانے پر اتفاق کیا ہے۔
اس کے علاوہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اور تجارت کو بڑھانے کے لیے بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان براہ راست پروازیں دوبارہ شروع کرنے پر بھی بات کی۔
خیال رہے کہ بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان آخری براہ راست پرواز پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز نے 2018 میں چلائی تھی جس کے بعد سے یہ سلسلہ معطل چلا آ رہا ہے۔
دوسری جانب پانچ اگست کو شیخ حسینہ کے استعفے اور بھارت جانے کے بعد سے بنگلہ دیش اور بھارت کے تعلقات میں تناؤ دیکھا گیا ہے۔
خیال رہے کہ اگست میں شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے لیے پرتشدد احتجاج کے دوران بنگلہ دیش میں ہندوؤں اور بھارت سے وابستہ عمارتوں کو بھی نشانہ بنایا گیا جس پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے محمد یونس کی حکومت سے اقلیتوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کی بھی اپیل کی تھی۔
دوسری جانب بنگلہ دیش کی بعض سیاسی جماعتوں نے شیخ حسینہ کی عوامی لیگ کے ساتھ تعلقات استوار کرنے پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کرنے پر بھارت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
رفیع الزمان صدیقی کا کہنا ہے کہ بھارت بنگلہ دیش کا بڑا ہمسایہ ہے جس کے ساتھ اس کی چار ہزار کلو میٹر سے زائد کی سرحد ہے اور دونوں کا ایک دوسرے پر بہت دارومدار ہے۔ لہذا اسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیشی عوام میں بھارت کے حوالے سے تحفظات کی وجہ اس کا ہمسایہ ملک کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے بجائے اس پر اپنا اثر و رسوخ رکھنے کی حکمتِ عملی ہے۔ ان کے بقول اسی بنا پر حال ہی میں بنگالی عوام نے بھارتی مصنوعات کا بائیکاٹ بھی کیا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ اسی وجہ سے محمد یونس نے بیان دیا کہ لوگ بھارت سے ناراض اس لیے ہیں کہ انہوں نے عوام کے بجائے صرف شیخ حسینہ سے تعلقات رکھے۔
رفیع الزمان کہتے ہیں کہ اگر آنے والے دنوں میں بنگلہ دیش شیخ حسینہ کی واپسی کا مطالبہ کرتا ہے تو یہ بھارت کے لیے مشکل صورتِ حال ہو گی کیوں کہ دونوں ملکوں کے درمیان مجرموں کی حوالگی کا معاہدہ بھی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ آئندہ انتخابات میں خالدہ ضیا کی بنگلہ دیش نیشنل پارٹی اور جماعت اسلامی کا اتحاد ہی حکومت بنا سکے گا۔
اکرام سہگل بھی سمجھتے ہی کہ بھارت کے لیے بنگلہ دیش پر دوبارہ سے اپنا اثر و رسوخ قائم کرنا ممکن نہیں ہو گا کیوں کہ موجودہ حالات نئی دہلی کے ڈھاکہ پر غیر ضروری اثر انداز ہونے کے ردعمل کا نتیجہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش کی عوام میں سے بھارت مخالف جذبات کو ختم کرنے میں وقت لگے گا اور بنگلہ دیش کی موجودہ اور آنے والی حکومت بھارت کو زیادہ جگہ نہیں دے سکے گی۔
وہ کہتے ہیں کہ بھارت مستقبل میں بنگلہ دیش کے ساتھ اپنے تعلقات کو شیخ حسینہ کے دور تک کبھی بھی واپس نہیں لے جاسکے گا۔
یاد رہے کہ 8 اگست کو نوبیل انعام یافتہ ماہر معاشیات محمد یونس نے بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ کے طور پر حلف اٹھا لیا تھا۔
پانچ اگست کو بنگلہ دیش میں کئی ماہ سے جاری پرتشدد مظاہروں کے بعد 15 سال سے حکومت پر براجمان شیخ حسینہ عہدے سے استعفیٰ دے کر بھارت چلی گئی تھیں۔