|
پاکستانی حکومت نے دائیں بازو کے مظاہرین کے دباؤ میں آکر اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کو جمعے کے روز ایک دہشت گرد قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہےکہ انہیں فلسطینیوں کے خلاف مبینہ جنگی جرائم کے الزام میں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
وزیر اعظم شہباز شریف کے سیاسی اور عوامی امور کے مشیر رانا ثناء اللہ کا یہ بیان ایک مذہبی سیاسی جماعت ،تحریک لبیک پاکستان یا ٹی ایل پی کے ساتھ دا رالحکومت کے باہر ایک اہم سڑک پر کئی روز سے جاری اس کے دھرنے کے خاتمے سے متعلق ایک معاہدے کا حصہ تھا۔
ٹی ایل پی کے ایک اہم مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے ثناء اللہ نے کہا، “نیتن یاہو ایک دہشت گرد اور جنگی جرائم کے مرتکب ہیں ۔” مشیر نے اسلام آباد میں ا ٹی ایل پی رہنماؤں اور وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں یہ بات کہی.
تحریک لبیک پاکستان کے ہزاروں حامیوں نے غزہ میں اسرائیلی حملوں کی مذمت کے لیے گزشتہ ہفتے دارالحکومت کے قریب ایک ریلی نکالی۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ نیتن یاہو کو دہشت گرد قرار دیا جائے، اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے اور فلسطینیوں کو امداد بھیجی جائے۔
پاکستانی وزیر اعظم کے مشیر اعلیٰ نے جمعے کو کہا، ’’ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اُن (نیتن یاہو]) پر مقدمہ چلایا جائے۔‘‘ “ہم اس ظلم (غزہ میں اسرائیل کے اقدامات)، اسرائیل اور اس میں ملوث تمام طاقتوں کی دلی طور پر مذمت کرتے ہیں۔”
ریلی کے بعد، بہت سے لوگوں نے ایک مصروف انٹرچینج پر دھرنا جاری رکھا جو اسلام آباد کو پڑوسی گیریژن شہر راولپنڈی سے ملاتا ہے، جس سے شہریوں کو آمدو رفت میں سخت مشکلات کا سامنا ہوا ۔
انتہا پسند جماعت،ٹی ایل پی کی عوامی ایجی ٹیشن کے ذریعے حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کی ایک تاریخ ہے ۔ 2017 میں، اس کے ہزاروں حامیوں نے پارلیمانی ارکان کے حلف میں ایک ترمیم کے خلاف تقریباً تین ہفتے کا دھرنا دے کر دارالحکومت کو مفلوج کر کے رکھ دیا تھا۔
پاکستان کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی یا تجارتی تعلقات نہیں ہیں، اور وہ ایک ایسا ملک ہے جسے اسلام آباد نے تسلیم نہیں کیا ہے۔ وہ 1967 سے قبل کی سرحدوں پر مبنی ایک متصل فلسطینی ریاست کی تشکیل کی حمایت کرتا ہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی تعلقات نہ ہونے کے باوجود، بہت سے پاکستانیوں نے اسرائیلی مصنوعات کے ساتھ ساتھ ا ن مغربی برانڈز کے بائیکاٹ کا بھی مطالبہ کیا ہے جو مشرق وسطیٰ کے اس ملک کے مددگار سمجھےجاتے ہیں۔
ثناء اللہ نے کہا کہ ’’ ہم نہ صرف اسرائیل بلکہ اس سے متعلق تمام مصنوعات اور ایسی کمپنیوں کا بائیکاٹ کریں گے جو اس ظلم میں بالواسطہ یا بلاواسطہ ملوث ہیں یا ان فورسز کی مدد کر رہی ہیں۔ ‘‘
حکومت نے بنیاد پرست جماعت سے یہ وعدہ بھی کیا ہے کہ وہ اس ماہ کے آخر تک فلسطینیوں کے لیے ایک ہزار ٹن سے زیادہ امدادی سامان بھیجے گی۔ گزشتہ سال اکتوبر سے اب تک پاکستان غزہ کے لیے انسانی امداد کی نو شپمنٹس بھیج چکا ہے ۔
حماس کے خاتمے کے مقصد سے کی گئی اسرائیلی کارروائیوں میں ایک اندازے کے مطابق 38,000 سے زیادہ فلسطینی مارے گئے اور پبلک سروس انفرا اسٹرکچر تباہ ہو گیا ہے ۔
یہ فوجی کارروائی 7 اکتوبر 2023 کو عسکریت پسند گروپ کی جانب سے اسرائیل پر حملے کے بعد ہوئی، جس میں تقریباً 1200 شہری ہلاک اور 250 سے زیادہ کو یرغمال بنایا گیا ۔
جمعے کے روز بین الاقوامی عدالت انصاف نے،جسے عالمی عدالت بھی کہا جاتا ہے، اسرائیل کی آبادکاری کی پالیسیوں اور فلسطینی علاقوں میں قدرتی وسائل کے استحصال کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا۔
جنوبی افریقہ نیدرلینڈز میں دی ہیگ میں قائم اقوام متحدہ سے منسلک عدالت میں اسرائیل کے خلاف نسل کشی کے مقدمے کی پیروی کر رہا ہے۔ اگرچہ عدالت نے غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں کو نسل کشی قرار دینے سے انکار کیا ہے ، تاہم اس نےاسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی کے کچھ حصوں میں فوجی کارروائیاں روکے اور ایسی کارروائیوں میں ملوث نہ ہو جس سے فلسطینیوں کو مزید نقصان پہنچے۔
انٹر نیشنل کریمنل کورٹ ،کے چیف پراسیکیوٹر نےحال ہی میں وزیر اعظم نیتن یاہو اور وزیر دفاع یوو گیلنٹ کے ساتھ ساتھ حماس کے تین رہنماؤں کے خلاف جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا الزام عائد کرتے ہوئے ان کے گرفتاری کے وارنٹ طلب کیے تھے۔
اسرائیل اور امریکہ نے یہ کہتے ہوئے عدالت کے اس اقدام کی مذمت کی کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔
پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے غزہ کی صورتحال کو نسل کشی کے مترادف کہا تھا۔
اپریل میں، اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل نے اسلامی تعاون تنظیم کی جانب سے پاکستان کی طرف سے پیش کی گئی ایک غیر پابند قرارداد کو منظور کیا، جس میں اسرائیل کو فوجی اسلحےاور ساز و سامان کی فروخت، اور منتقلی کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔