|
کراچی — دنیا کے کئی ممالک کے صحافتی اداروں کی مشترکہ تحقیقات میں سامنے آیا ہے کہ دبئی کی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرنے والوں میں ہزاروں پاکستانی سیاست دان، فوجی جرنیل اور بیورو کریٹس شامل ہیں۔ ان 17 ہزار پاکستانیوں کے پاس 23 ہزار جائیدادیں ہیں جن کی مالیت 12 ارب امریکی ڈالر سے بھی زائد ہے۔
یہ تفصیلات ناروے کے صحافتی ادارے ’ای 24‘ اور تحقیقاتی صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پروجیکٹ (او سی سی آر پی) کی جانب سے کی جانے والی حالیہ تحقیق میں سامنے آئی ہیں۔
دیگر ممالک کی طرح پاکستانیوں کے نام سامنے آنے پر سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر پاکستانی دنیا کے دیگر ممالک کے بجائے دبئی ہی میں جائیداد کی خریداری میں اس قدر دلچسپی کیوں رکھتے ہیں؟
دبئی میں ایسی کیا سہولیات ہیں جو بااثر پاکستانیوں کو وہاں سرمایہ لگانے پر مجبور کرتی ہیں۔ اور کیا یہ سرمایہ کاری محفوظ بھی ہوتی ہے؟ کیا یہاں لگایا گیا پیسہ پاکستانیوں کو بہتر ریٹرن یعنی منافع دیتا ہے؟
‘آمدن کے ذرائع کے بارے میں سوالات نہ ہونا’
انہی سوالات کا جواب تلاش کرنے کے لیے ہم نے پراپرٹی امور کے ماہر اور سپریم کورٹ کے وکیل ملک الطاف حسین ایڈووکیٹ سے رابطہ کیا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ اس ضمن میں سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ سالوں بلکہ گزشتہ دو دہائیوں میں دبئی آنے والے سرمایہ کاروں سے ان کی آمدن کا ذریعہ نہیں پوچھا جاتا تھا۔
اُن کے بقول اس لیے یہاں سرمایہ کار بغیر کسی تردد کے پیسے لگاتے رہے۔ تاہم پچھلے دو برسوں میں صورتِ حال تبدیل ہوئی ہے اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی پابندیوں کے باعث اب متحدہ عرب امارات میں سرمایہ کاری سے قبل وہاں آنے والے غیر ملکیوں سے آمدنی کے ذرائع سے متعلق معلومات فراہم کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے۔
لیکن ملک الطاف حسین کے مطابق اب بھی عرب امارات میں اس متعلق قوانین میں کافی سقم پایا جاتا ہے اور اسی سقم کا فائدہ اب بھی اٹھایا جا رہا ہے۔
‘پاکستان سے ناجائز دولت دبئی منتقل کرنا آسان رہا ہے’
پراپرٹی ایکسپرٹ عبداللہ حسن جنہوں نے دبئی اور پاکستان دونوں ہی کی مارکیٹ میں بھی کام کیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ بہت سے بااثر پاکستانیوں کو اپنی ‘ناجائز دولت’ دبئی میں پارک کرنے میں کافی آسانی ہوتی ہے۔
اُن کے بقول حوالہ اور ہنڈی جیسے غیر قانونی ذرائع سے پاکستان سے دبئی رقم منتقل کرنا کافی آسان رہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ سمندر کے راستے لانچوں کے ذریعے بھی بھاری منی لانڈرنگ کی جاتی رہی ہے اور اس سے متعلق سپریم کورٹ میں کراچی بدامنی کیس میں رپورٹس بھی جمع کرائی گئیں۔
انہوں نے بتایا کہ وہاں رقم پہنچنے کے بعد سرمایہ لانے والوں کو کسی قسم کی پوچھ گچھ کا سامنا نہیں ہوتا۔ اسی وجہ سے بہت سے لوگوں نے وہاں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے۔ جب کہ پاکستان میں اس بارے میں کئی بار آوازیں سامنے آنے پر بھی کبھی اس معاملے پر تحقیقات نہیں کی گئیں کیوں کہ اس سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات خراب ہونے کا خدشہ تھا۔
‘دبئی میں سرمایہ کاری پر اچھا منافع ملتا ہے’
عبداللہ حسن نے یہ بھی بتایا کہ کافی سالوں میں یہاں سرمایہ کاری پر منافع بھی کافی اچھا مل رہا ہے۔ جب کہ یہاں ٹیکس ریٹ بھی دنیا کی دیگر ریاستوں کے مقابلے میں کافی کم ہے۔
دیگر شہروں کے مقابلے میں دبئی میں پرسنل ٹیکس، کیپیٹل گین ٹیکس، پراپرٹی ٹیکس کا اطلاق غیر ملکی شہریوں پر نہیں ہوتا۔ ایسے میں سرمایہ کاروں کو اپنے سرمائے کا بھرپور پھل ملتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ دبئی کی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ میں مختلف سرمایہ کاروں کی ترجیحات کے مطابق جائیداد کی متنوع رینج موجود ہوتی ہے۔
اُن کے بقول اگر آپ پرتعیش ولاز، اعلیٰ درجے کے اپارٹمنٹس، واٹر فرنٹ پراپرٹیز یا تجارتی جگہوں میں دلچسپی رکھتے ہیں تو دبئی میں یہ سب کچھ موجود ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ سرمایہ کار مختلف محلوں اور ماسٹر پلانڈ کمیونٹیز میں سے اپنی پسند کے مطابق انتخاب کر سکتے ہیں۔ یہ تنوع سرمایہ کاروں کو ایسی خصوصیات تلاش کرنے کی اجازت دیتا ہے جو ان کے بجٹ، طرز زندگی اور سرمایہ کاری کے اہداف کے مطابق ہوں۔ ظاہر ہے کہ ان مواقع سے متمول پاکستانیوں نے بھی خوب فائدہ اٹھایا ہے۔
دبئی میں جائیدادیں خریدنے والے پاکستانیوں کی اگلی منزل یورپ اور امریکہ
عبداللہ حسن کا یہ بھی کہنا تھا کہ دبئی میں جائیدادیں خریدنے والے پاکستانی ہوں یا دیگر غیر ملکی، انہیں جائیدادیں خریدنے پر یہاں جزوی رہائش اختیار کرنے کا اجازت نامہ (اقامہ) بھی مل جاتا ہے اور یوں ان کے لیے ملک سے دور غیر ملک میں دوسرا گھر میسر آ جاتا ہے۔
لیکن ان میں سے اکثر ایسے پاکستانیوں کی اگلی منزل امریکہ، کینیڈا اور یورپ ہوتی ہے اور وہ اپنی جائیداد اچھے داموں بیچ کر آگے منتقل ہو جاتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ دبئی میں غیر ملکیوں کو مخصوص علاقوں میں جائیدادیں خریدنے کا مکمل حق ہے اور انہیں مکمل ملکیتی حقوق دیے جاتے ہیں۔
حکومت نے متعدد فری ہولڈ زونز اور علاقوں کی نشاندہی کر رکھی ہے جہاں غیر ملکی شہری مکمل طور پر جائیداد کے مالک بن سکتے ہیں۔ اس سرمایہ کار دوست پالیسی نے غیر ملکی سرمایہ کاری کی نمایاں آمد کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے جس سے رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو یہاں کافی فروغ ملا ہے۔
ماہرین کے مطابق دبئی کی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ نے مسلسل استحکام اور ترقی کا بھی مظاہرہ کیا ہے۔ عالمی اقتصادی اتار چڑھاؤ کے باوجود 2008 کے بعد سے دبئی کی پراپرٹی مارکیٹ مستحکم رہی ہے جو محفوظ اور منافع بخش منصوبوں کی تلاش میں سرمایہ کاروں کو راغب کر رہی ہے۔
اُن کے بقول اس کے ساتھ شہر کی فعال حکومت اور اس کے بڑھتے ہوئے سیاحتی شعبے اور مختلف میگا ایونٹس نے رئیل اسٹیٹ مارکیٹ کی مضبوطی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
کئی ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ ایسے پاکستانیوں کی بھی کمی نہیں جو امیر ہونے کے ساتھ قانونی وسائل رکھتے ہیں اور وہ بھی دبئی میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔
کیا دبئی میں انویسٹمنٹ خطرے سے خالی ہے؟
دبئی کی رئیل اسٹیٹ انڈسٹری میں سرمایہ کاری میں مزید تیزی روس یوکرین جنگ کے بعد زیادہ دیکھی گئی ہے۔
لیکن ماہرین کے مطابق یہاں سرمایہ کاری خطرے سے خالی نہیں کیوں کہ روسی اور چینی مارکیٹوں سے پیسے کم آنے کی صورت میں یہاں ویلیو میں کمی آسکتی ہے۔
حالیہ عرصے میں بھارتی سرمایہ کاروں نے بھی اس مارکیٹ میں کافی دلچسپی ظاہر کرنا شروع کر دی ہے۔ اگر اس سرمایہ کاری میں کمی آتی ہے اور اس کے ساتھ عالمی معاشی صورتِ حال خراب ہوتی ہے۔
عبداللہ حسن کے بقول مہنگائی بڑھ جانے کے باعث شرح سود بھی بڑھ جائے اور اسرائیل حماس جنگ کے اثرات بھی یہاں کی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ کسی بھی قانون کی معمولی خلاف ورزی کی صورت میں بھی غیر ملکیوں کو سخت قانونی سزا کا سامنا بھی کر پڑ سکتا ہے اور ایسے میں انہیں نہ صرف اقامے بلکہ یہاں کی گئی بھاری سرمایہ کاری سے بھی ہاتھ دھونے پڑ سکتے ہیں۔