|
موجودہ سال شروع ہونے سے اب تک پاکستان میں پانچ صحافی اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔
کراچی سے تعلق رکھنے والی ایک جرنلسٹ عنبر رحیم شمسی کا کہنا ہے کہ تشدد کے واقعات نے ملک بھر کے نامہ نگاروں کو گویا بے حس سا بنا دیا ہے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کی وجہ ’خوف‘ ہے یا اس طرح کے واقعات اب ان کے لیے ’معمول‘ سا بن گئے ہیں۔ لیکن میرے نزدیک اس طرح کی بے حسی خوف کے کھلے اظہار کی نسبت زیادہ تشویش ناک ہے۔
صحافیوں کی اس سال اب تک ہونے والی پانچ میں سے چار ہلاکتیں مئی کے مہینے میں ہوئی ہیں، جن میں سے ایک محمد صدیق مینگل صوبہ بلوچستان میں بم دھماکے کا نشانہ بنے۔
کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) کا کہنا ہے کہ ان ہلاکتوں نے مئی کو ریکارڈ پر پاکستان میں صحافیوں کے لیے سب سے ہلاکت خیز مہینہ بنا دیا ہے۔
پاکستان میں صحافیوں کی یہ ہلاکتیں ایک ایسے وقت میں ہوئی ہیں جب کہ میڈیا اپنے لیے بڑھتے ہوئے خطرات سے پہلے ہی پریشان ہے۔
میڈیا کی صورت حال پر نظر رکھنے والے ادارے کی رپورٹس کے مطابق مئی میں دو صحافی لاپتہ ہوئے ہیں، کوئٹہ میں پریس کلب پر چھاپہ مارا گیا، دو صحافیوں کو، جنہوں نے چھاپے پر اعتراض کیا تھا، حراست میں لے لیا گیا، پنجاب کی صوبائی حکومت نے ہتک عزت کے ایک قانون کی منظوری دی، جس کے بارے میں ناقدین کا کہنا ہے کہ اسے میڈیا کو دبانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اختلاف رائے کو جرم بنایا جا رہا ہے
رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز( آر ایس ایف) کے پاکستان میں نمائندے اقبال خٹک نے دارالحکومت اسلام آباد سے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آزادی اظہار کی گنجائش سکڑتی جا رہی ہے اور اختلاف رائے کو جرم بنایا جا رہا ہے۔
پاکستان کے صحافی پہلے ہی بڑے دباؤ میں کام کر رہے ہیں۔ میڈیا کی صورت حال پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ تاریخی لحاظ سے ایک متحرک میڈیا کا منظرنامہ رکھنے کے باوجود صحافی ملک کی طاقت ور فوج اور انٹیلی جینس ایجنسیوں پر تنقید کے لیے بہت محدود گنجائش کے باعث بچ بچا کر اپنے فرائص ادا کرنے پر مجبور ہیں۔
تنقید کرنے والے صحافیوں کو لاپتہ یا ہلاک کر دیا جاتا ہے
انسانی حقوق کی تنظمیں بطور خاص برسوں سے انٹرسروسز انٹیلی جینس ایجنسی (آئی ایس آئی) پر تنقید کرنے والے صحافیوں کی جبری گمشدگی اور حتیٰ کہ ان کے قتل کا الزام لگاتی آ رہی ہیں۔
واشنگٹن میں پاکستان کے سفارت خانے اور وزارت خارجہ نے وائس آف امریکہ کی جانب سے تبصرے کے لیے بھیجی جانے والی ای میلز کا کوئی جواب نہیں دیا۔
کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ صحافیوں پر حملوں میں موجودہ اضافہ اس سیاسی بحران کا نتیجہ ہو سکتا ہے جس نے دو سال قبل سابق وزیر اعظم عمران خان کی برطرفی کے بعد سے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔
سیاسی عدم تحفظ ہو تو میڈیا پر دباؤ آتا ہے
اقبال خٹک کہتے ہیں کہ سیاسی عدم تحفظ کے حالات میں میڈیا پر زیادہ دباؤ آتا ہے۔
سن 2021 کے بعد سے اس سال مارچ تک پاکستان میں کوئی صحافی قتل نہیں ہوا تھا۔ لیکن سی پی جے کا، جو 1992 سے صورت حال پر نظر رکھ رہاہے، کہنا ہے اس کے ریکارڈ میں ایسے درجنوں واقعات ہیں، جن میں ایسے صحافیوں پر حملے ہوئے یا انہیں قتل کیا گیا جو پر خطر معاملات پر کام کر رہے تھے۔
ماہرین کا کہنا ہےکہ ایسے مقدمات میں، جن میں کسی صحافی کو ہدف بنایا گیا ہو، انصاف کا نہ ملنا یا ارتکاب کرنے والوں کو استثنیٰ حاصل ہونے سے مسئلے کی شدت بڑھ جاتی ہے۔ ایسے 37 مقدمات میں، جن کے متعلق سی پی جے نے یہ تصدیق کی صحافیوں کو ان کے کام کی وجہ سے براہ راست قتل کیا گیا تھا، ان میں سے 34 مقدمات ابھی تک حل طلب ہیں۔
صحافیوں کے قاتل کیوں پکڑے نہیں جاتے؟
پاکستان میں ہیومن رائٹس واچ کے ساتھ کام کرنے والے سروپ اعجاز کہتے ہیں کہ جب صحافیوں کے قتل کا معاملہ ہو تو پاکستان میں استثیٰ کا راج ہوتا ہے کیونکہ حکومت مجرموں کو جوابدہ ٹہرانے کی فکر نہیں کرتی۔
لاہور سے سروپ اعجاز نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صحافیوں کو دشمن اور مخالفین کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
رپورٹروں اور خبررساں اداروں کو بھی قانونی خطرات کے شدید دباؤ کا سامنا رہتا ہے۔
تجزیہ کاروں کو ہتک عزت کے اس نئے قانون پر فکر لاحق ہے جسے پنجاب کی صوبائی حکومت نے مئی کے شروع میں اختیار کر لیا ہے۔
قانون کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اس سے جھوٹی خبروں کو پھیلنے سے روکنے میں مدد ملے گی۔
لیکن ناقدین کو سخت سزاؤں پر تشویش ہے، جن میں جرمانے اور میڈیا کے پورے ادارے کی بندش شامل ہے۔پاکستان کی میڈیا تنظیموں نے اسے صحافتی آزادی کے لیے کالا قانون قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اس قانون کا غلط استعمال ہو گا۔
پنجاب کا ہتک عزت کا قانون مخالفین کے خلاف استعمال ہو سکتا ہے
واشنگٹن میں قائم ایک تھنک ٹینک ولسن سینٹر کے ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین کہتے ہیں کہ سطحی طور پر یہ ایک اچھا قانون دکھائی دیتا ہے کیونکہ ظاہری لحاظ سے اس کا مقصد جھوٹی خبروں کو پھیلنے سے روکنا ہے، لیکن عملی طور پر اس قانون کا استعمال حزب اختلاف کو ہدف بنانے کے لیے کیا جائے گا۔
کوگل مین مزید کہتے ہیں کہ خبروں کے جھوٹا ہونے کے بارے میں ٖفیصلہ کون کرتا ہے؟ مجھے ڈر ہے کہ اس قانون کو کسی ایسے شخص کے خلاف بہانے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے جو کچھ ایسا کہے، یا لکھے یا نشر کرے جس میں ان پر تنقید ہو یا وہ ان پر گراں گزرے۔
قانون کے تحت عدالتی کارروائی کو بھی خفیہ رکھا جائے گا جس کے بارے میں صحافی منیزے جہانگیر کا کہنا تھا کہ انہیں اس پر تشویش ہے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کیا یہ کینگروکورٹس ہیں؟ کیا ہم مارش لا کے دور میں واپس جا رہے ہیں؟
منیزے جہانگیر پاکستان کے ایک نیوز چینل آج ٹی وی کے حالات حاضرہ کے پروگرام ’اسپاٹ لائٹ‘ کی میزبانی کرتی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ وہ انسانی حقوق کمیشن برائے پاکستان کی شریک چیئر پرسن بھی ہیں۔
فوج، خفیہ ایجنیسوں اور اسلام پر تنقید نہیں ہو سکتی
یہ قانون از خود سینسر شپ کا راستہ بھی دکھا سکتا ہے۔ پاکستان کے صحافیوں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی تحریک کی سیاسی لہروں میں صحافیوں کے لیے سرخ لکیر ہو سکتی ہے، لیکن جب بات ملک کی فوج اور انٹیلی جینس ایجنسیوں یا اسلام کی ہو تو ان پر تنقید شجر ممنوعہ بن جاتی ہے۔
منیزے جہانگیر کہتی ہے کہ پاکستان فی الواقع ایک بارودی سرنگ کی طرح ہے۔ آپ نہیں جانتے کہ نو گوایریاز کہاں ہیں۔ ایک بار جب آپ اپنا پاؤں وہاں رکھ دیں تو پھر آپ کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کیا پھٹںے والا ہے اور آپ کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔
عنبر رحیم شمسی بی بی سی ورلڈ سروس اور ڈان جیسے میڈیا اداروں کے ساتھ کام کرچکی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ میں پاکستان میں صحافیوں کی اگلی نسل کے بارے میں فکر مند ہوں۔
انہوں نے پریس کی آزادی کے پس منظر کے حوالے سے کہا کہ نئی نسل کو کچھ بھی معلوم نہیں ہے۔
لیکن وہ پاکستانی میڈیا کی مزاحمت کی مضبوط تاریخ سے پرامید بھی ہیں۔
منیزے جہانگیر اس بات سے اتفاق کرتی ہیں کہ ہمیں سچ بتانا ہو گا۔ چاہے اس کی قیمت کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو۔
لیم سکاٹ، وی او اے نیوز