|
اسلام آباد _ بنگلہ دیش کی سابق وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد ڈھاکہ اور اسلام آباد کے تعلقات میں بتدریج بہتری آ رہی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان سیاسی، سفارتی اور کاروباری سطح پر رابطے بڑھے ہیں۔
ایک طرف بنگلہ دیش پاکستان کے قریب آ رہا ہے تو دوسری جانب اس کے بھارت کے ساتھ تعلقات میں تناؤ بڑھ رہا ہے۔
بھارت کے ساتھ تناؤ کی ایک وجہ یہ بھی ہے شیخ حسینہ نے بھارت میں پناہ لے رکھی ہے اور ڈھاکہ میں ملک کی عبوری حکومت چاہتی ہے کہ نئی دہلی شیخ حسینہ کو ملک بدر کرتے ہوئے بنگلہ دیش کے حوالے کر دے، جس سے بھارت اب تک انکاری ہے۔
بنگلہ دیش میں کئی ہفتوں کے پرتشدد مظاہروں کے بعد رواں سال اگست میں شیخ حسینہ ملک چھوڑ کر بھارت چلی گئی تھیں۔ جس کے بعد آٹھ اگست 2024 کو نوبیل انعام یافتہ ماہر معاشیات محمد یونس نے بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ کے طور پر حلف اٹھایا تھا۔
بنگلہ دیش میں نئی حکومت کے قیام کے بعد پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات میں گرم جوشی پیدا ہوئی ہے۔
رواں ماہ قاہرہ میں پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف اور بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس کی ملاقات ہوئی تھی جس میں دونوں ملکوں کے تعلقات کو فروغ دینے پر اتفاق کیا گیا تھا۔
اس سے قبل ستمبر میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر بھی پاکستان اور بنگلہ دیش کے رہنماؤں کی ملاقات ہوئی تھی جس کے بعد شہباز شریف نے محمد یونس کو پاکستان کا سرکاری دورہ کرنے کی بھی دعوت دی تھی۔
شیخ حسینہ کے گزشتہ پندرہ سالہ دورِ حکومت میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں سرد مہری کا عنصر نمایاں تھا۔ بعض ماہرین کے نزدیک اس کی وجہ شیخ حسینہ کا بھارت کی طرف جھکاؤ تھا۔
بنگلہ دیش میں پاکستان کے سفیر رہنے والے افراسیاب مہدی ہاشمی سمجھتے ہیں کہ شیخ حسینہ کی جماعت عوامی لیگ کا جھکاؤ بھارت کی طرف رہا ہے جب کہ بنگلہ دیش عوامی پارٹی پاکستان کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے۔
افراسیاب مہدی کے مطابق عوامی لیگ کے بھارت نواز ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ 1971 میں نئی دہلی نے فوجی مداخلت کے ذریعے بنگلہ دیش کی آزادی میں مدد کی تھی۔
ان کے بقول یہ علیحدگی چوں کہ کسی عوامی ریفرنڈم کے نتیجے میں نہیں ہوئی تھی، اس لیے بنگلہ دیش کے عوام کی اکثریت پاکستان کو پسند کرتی ہے۔
“بنگلہ دیش کے عوام پاکستان کے بارے میں اس لیے بھی نرم گوشہ رکھتے ہیں کیوں کہ وہ اپنی مسلم شناخت کو بہت قریب رکھتے ہیں۔ اس لیے دونوں ملکوں کے عوام کبھی ایک دوسرے کے مخالف نہیں ہوئے۔”
پاکستان کے سابق سینیٹر مشاہد حسین سید کہتے ہیں کہ ڈھاکہ میں آنے والی تبدیلی کے نتیجے میں بنگلہ دیش کا بھارت اور پاکستان سے متعلق نظریہ بھی تبدیل ہوا ہے۔
مشاہد حسن کے بقول دونوں ملکوں کی علاقائی اور خارجہ پالیسی میں خاصی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ اب وقت ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے دو طرفہ تعلقات کو ہر سطح پر مضبوط بنایا جائے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش کے عوام بھی چاہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے دوستانہ اور اسٹرٹیجک تعلقات مزید گہرے ہونے چاہئیں۔
’پاکستان بنگلہ دیش ایک دوسرے کے لیے ویزا فری کر دیں‘
مشاہد حسین سید کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کو چاہیے کہ دونوں ایک دوسرے کے لیے ویزا فری کر دیں۔ تاکہ سیاحت، کاروباری اور ثقافتی تعلقات کو فروغ ملے۔
ان کے بقول پاکستان کے سرمایہ کاروں کی پہلے سے بنگلہ دیش میں صنعتیں موجود ہیں اور جی ایس پی پلس کی سہولت کی وجہ سے بہت سے سرمایہ کار بنگلہ دیش میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں۔
افراسیاب مہدی کا کہنا ہے کہ مسلم نیشنل ازم کے تناظر میں بنگلہ دیش کو بھی پاکستان کی ضرورت ہے اور وہ بھی ایسے وقت میں جب بھارت سے ان کے تعلقات میں تناؤ پایا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بنگال کا مسلمان یہ سمجھتا ہے کہ وہ پاکستان سے الگ ہو کر بھارت کے زیرِ اثر چلا گیا جو اس کی مسلم تشخص کے لیے قابلِ قبول نہیں ہے۔
افراسیاب مہدی کے بقول دونوں ملکوں میں تعلقات کو وسیع بنانے کے بہت سے مواقع موجود ہیں۔ تاہم اسلام آباد کو یہ بھی مدِنظر رکھنا چاہیے کہ ڈھاکہ میں اس وقت ایک عبوری حکومت ہے۔
’1971 کے واقعات کو دوبارہ نہیں چھیڑنا چاہیے‘
قاہرہ میں وزیرِ اعظم شہباز شریف سے ملاقات کے بعد بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ 1971 میں بنگلہ دیش کی پاکستان سے علیحدگی اور آزادی کے واقعات سے جڑی ہوئی تمام رنجشوں اور شکایات کو بھی حل کیا جائے۔
محمد یونس کے دفتر کی طرف سے جاری ایک بیان کے مطابق انہوں نے پاکستان کے وزیرِ اعظم سے کہا کہ ”یہ مسائل اور موضوعات بار بار سامنے آتے ہیں۔ آئیے مل کر ان مسائل کو حل کریں تاکہ ہم آگے بڑھ سکیں۔”
تاہم اس پر افراسیاب مہدی سمجھتے ہیں کہ 1971 کا معاملہ اب ختم ہو چکا ہے، اسے اب دوبارہ نہیں چھیڑنا چاہیے۔
وہ کہتے ہیں کہ 1971 میں ہونے والی زیادتیوں کا معاملہ تو اس وقت ختم ہو گیا تھا جب پاکستان بنگلہ دیش اور بھارت نے 1974 میں ایک معاہدے کے ذریعے تعلقات استوار کیے۔
ان کے بقول اس معاہدے میں پاکستان نے 1971 کے واقعات پر افسوس کا اظہار کیا اور شیخ مجیب نے کہا تھا کہ بنگالی معاف کرنا اور آگے بڑھنا جانتے ہیں۔
افراسیاب مہدی کے مطابق اس کے بعد شیخ مجیب نے پاکستان کا دورہ بھی کیا تھا۔ اس لیے ماضی میں حل ہو چکے معاملے کو اب دوبارہ نہیں چھیڑنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ جنرل یحیٰی اور جنرل نیازی کو پاکستان میں کوئی اپنا ہیرو نہیں مانتا اور سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے بھی اپنے دورۂ ڈھاکہ میں یادگار شہدا پر جاکر ان واقعات پر افسوس کا اظہار کیا تھا۔