|
اسلام آباد — پاکستان میں انٹرنیٹ سلو ہونے کے حوالے سے حکومت کی طرف سے مختلف بیانات سامنے آ رہے ہیں جن میں انٹرنیٹ کی اسپیڈ کم ہونے کو تسلیم تو کیا جا رہا ہے لیکن اس کی مختلف توجیہات پیش کی جا رہی ہیں۔
وزیرِ مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی شزہ فاطمہ خواجہ نے اتوار کو نیوز کانفرنس کے دوران بتایا تھا کہ ‘وی پی این’ کے زیادہ استعمال کی وجہ سے انٹرنیٹ کی اسپیڈ کم ہوئی۔
دوسری جانب پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کا کہنا ہے کہ ملک میں انٹرنیٹ کی رفتار کم ہونے کی چار وجوہات ہیں۔
لاہور ہائی کورٹ میں پی ٹی اے نے جواب دیا کہ زیرِ سمندر کیبل کٹ جانے سے انٹرنیٹ کی رفتار کم ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ 31 جولائی کو ایک انٹرنیٹ کمپنی کی غلطی کی وجہ سے بھی انٹرنیٹ کی اسپیڈ کم ہوئی۔
پی ٹی اے کے وکیل کے مطابق 15 اگست کو بھارت کے یومِ آزادی پر سائبر حملہ ہوا جس سے بھی انٹرنیٹ کی رفتار میں کمی آئی۔ وکیل کے جواب کے مطابق ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک (وی پی این) کے بے تحاشہ استعمال کی وجہ سے بھی انٹرنیٹ کی اسپیڈ متاثر ہوئی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ اسپیڈ کم ہونے کی یہ سب وجوہات ہو سکتی ہیں۔ لیکن موجودہ صورتِ حال میں نظر آ رہا ہے کہ پاکستان میں انٹرنیٹ کے نظام میں ایسا نظام نصب کیا گیا ہے جس کی وجہ سے انٹرنیٹ کی اسپیڈ 30 سے 40 فی صد تک کم ہو چکی ہے۔
کیا حکومتی کی جانب سے بتائی گئی وجوہات ٹھیک ہیں؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے انٹرنیٹ سست ہونے کی وجوہات تیکنیکی طور پر درست ہو سکتی ہیں۔ لیکن اصل وجہ ان میں سے کیا ہے یہ حکومت ہی بتا سکتی ہے۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہر ندیم احسان کہتے ہیں کہ انٹرنیٹ اسپیڈ کم ہونے کی وجوہات کئی ایک ہو سکتی ہیں۔ لیکن اس وقت سب سے اہم وجہ فائر وال کی تنصیب نظر آ رہی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ندیم احسان کا کہنا تھا کہ فائر وال لگنے کا مطلب ہے کہ ایک سڑک پر جانے والی ٹریفک میں اچانک ایک پولیس پوسٹ قائم کر دی جائے جو تمام گاڑیوں کو چیک کرے تو لازمی طور پر ٹریفک میں تعطل آئے گا اور ٹریفک سلو ہو جائے گی۔
اُن کے بقول اس وقت جو نظر آ رہا ہے وہ یہی فائر وال کا نظام لگ رہا ہے جس کی وجہ سے انٹرنیٹ کی اسپیڈ کم ہو گئی ہے اور ملک بھر میں صارفین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ سب میرین کیبل میں فالٹ آنا بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے کیوں کہ پاکستان میں صرف دو سے تین انٹرنیشنل کیبلز آرہی ہیں اور اگر ان میں سے ایک میں بھی کوئی فنی خرابی آ جائے تو اس کے لیے متاثرہ کیبل کی ٹریفک کو کام کرنے والی کیبلز پر منتقل کرنا پڑتا ہے اور اس وجہ سے انٹرنیٹ کی رفتار کم ہو سکتی ہے۔
‘سوال یہ ہے کہ پاکستان میں کتنے لوگ وی پی این استعمال کرتے ہیں’
آئی ٹی پروفیشنل اور سائبر فارنزک کے ماہر شہزاد راجہ کہتے ہیں کہ عام طور پر فائر وال یا راؤٹر لگنے سے اسپیڈ متاثر ہوتی ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ وہ ویب سائٹس جن سے کسی کو بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے انہیں وائٹ لسٹ ڈیکلیئر کیا جائے تو مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔
شہزاد راجہ کا کہنا تھا کہ وی پی این کے حوالے سے وزیرِ مملکت شزہ فاطمہ نے جو بیان دیا ہے وہ تیکنیکی طور پر درست ہو سکتا ہے۔
اُن کے بقول عام ٹریفک انٹرنیشنل گیٹ وے پر لگے ہوئے کیشے سے گزرتی ہے۔ تمام ویب سائٹس جیسے یوٹیوب یا فیس بک اس سے گزر کر جاتی ہیں۔ لیکن جب وی پی این لگایا جاتا ہے تو اس کیشے سے بچ کر ٹریفک ایک نیا لوپ بنا لیتی ہے۔
شہزاد راجہ کہتے ہیں کہ سوال یہ ہے کہ پاکستان میں کتنے لوگ وی پی این استعمال کر رہے ہیں۔ کیا پورے پاکستان کے لوگ وی پی این استعمال کر رہے ہیں؟
سائبر اٹیک کی وجہ سے اسپیڈ کم ہونے کے بارے میں شہزاد راجہ کا کہنا تھا کہ ترقی یافتہ ممالک نے دوسرے ملکوں سے آنے والے اٹیکس کے لیے فائر وال نصب کر رکھی ہیں۔
یہ کسی بھی قسم کا اٹیک ہو سکتا ہے جس کے لیے یہ فائر وال اس اٹیک کو ریورس کر دیتا ہے۔ اس دوران ریورس کرنے میں کچھ دیر کے لیے انٹرنیٹ سلو ہو سکتا ہے۔ یہ وجہ ہو سکتی ہے لیکن یہ محدود وقت کے لیے ہوتا ہے۔
اُن کے بقول پاکستان میں اس اٹیک کی وجہ سے اگر 15 اگست کی تاریخ کہی جا رہی ہے تو پھر صرف اسی تاریخ کو انٹرنیٹ سلو ہونا چاہیے تھا۔ لیکن ہمارے ہاں کئی ہفتوں سے انٹرنیٹ کی اسپیڈ متاثر ہے اور اس سے بھی پتا چلتا ہے کہ سائبر اٹیک نہیں بلکہ اس کی وجہ فائر وال ہی ہے۔
قائمہ کمیٹی انفارمیشن ٹیکنالوجی کا اجلاس اور پی ٹی اے کی بریفنگ
بدھ کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا اجلاس منعقد ہوا۔ کمیٹی میں وزیر آئی ٹی شزہ فاطمہ چیئرمین پی ٹی اے میجر جنرل (ر) حفیظ الرحمٰن اپوزیشن لیڈر عمر ایوب، بیرسٹر گوہر، مصطفی کمال اور دیگر نے شرکت کی۔
چیئرمین قائمہ کمیٹی سید امین الحق نے ملک میں انٹرنیٹ سروسز میں خلل اور سوشل میڈیا سروس کی بندش پر نوٹس لیا تھا۔ چئیرمین پی ٹی اے میجر جنرل (ر) حفیظ الرحمٰن کو طلب کر رکھا تھا جس پر انہوں نے کمیٹی کو بریفنگ دی۔
سید امین الحق نے پوچھا کہ عوام کو بتایا جائے انٹرنیٹ سروس کیوں متاثر ہیں؟ فائر وال لگا ہے یا نہیں بتایا جائے؟ میڈیا کو پی ٹی اے اس سے متعلق آگاہی دے تاکہ عوام کو آگاہ کیا جاتا رہے۔
چیئرمین پی ٹی اے میجر جنرل (ر) حفیظ الرحمٰن نے کہا کہ وزیرِ مملکت نے پریس کانفرنس کی تھی اس میں کئی وجوہات بتائی گئی تھیں۔ 7.5 ٹیرا بائٹ ڈیٹا ایک کیبل سے پاکستان آتا ہے۔ سب میرین کنسورشیم نے آگاہ کیا ہے کہ سب میرین کیبل میں فالٹ ہے جس کی وجہ سے انٹرنیٹ متاثر ہے۔ سات فائبر آپٹک کیبل پاکستان آتی ہیں جس میں سے ایک خراب ہے۔ 27 اگست تک کا وقت ہے وہ کیبل ٹھیک ہو جائے گی، اس صورتِ حال پر وی پی این کے استعمال سے مقامی انٹرنیٹ ڈاؤن ہوا۔
رکن قائمہ کمیٹی نے کہا کہ لوگوں کو وی پی این استعمال کرنے کی کیوں ضرورت پیش آئی؟ چیئرمین پی ٹی اے نے کہا کہ سی ڈی این پر جو ڈیٹا موجود نہیں تھا وی وہ وی پی این سے قابلِ رسائی ہو جاتا ہے۔
بیرسٹر گوہر علی نے کہا کہ کیا دنیا میں دیگر ممالک میں بھی زیر سمندر کیبل متاثر ہے یا صرف پاکستان کی کیبل متاثر ہے؟ میجر جنرل (ر) حفیظ الرحمٰن نے کہا کہ پاکستان کی سب میرین کیبل متاثر ہے۔
رکن قائمہ کمیٹی نے پوچھا کہ کیا وی پی این کا استعمال غیر قانونی ہے؟ اس پر چیئرمین پی ٹی اے نے قانون سے لاعلمی کا اظہار کیا اور متعلقہ لا افسر کو بلا لیا۔
اجلاس میں مصطفی کمال نے پوچھا کہ اس بریک ڈاؤن سے کتنا نقصان ہوا ہے پی ٹی اے کو کوئی اندازہ ہے؟ علی قاسم گیلانی نے کہا فری لانسرز کو کتنا نقصان ہوا؟ اسی طرح دیگر ارکان قائمہ کمیٹی نے چئیرمین پی ٹی اے پر سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔
چیئرمین پی ٹی اے نے کہا کہ ٹیلی کام سیکٹر کو چھ روز میں 300 ملین روپے کا نقصان ہوا، ہم نے جاز، زونگ سمیت تمام کمپنیوں کے سی ای اوز پر ایک کمیٹی بنائی ہے، کمیٹی نے اخذ کیا کہ کسی سطح پر کوئی خرابی یا مسئلہ نہیں ہے۔ آرٹیکل 19 کہتا ہے آزادی اظہار رائے ہو مگر اس کی 5 یا 6 کیٹیگریز ہیں اس پر عمل درآمد کیسے ہو؟ ہر ملک نے اپنا ایک سسٹم لگایا ہوا ہے جب حکومت کہتی ہے کہ کوئی چیز انٹرنیٹ پر نہیں آنی چاہیے تو وہ کیسے کریں گے؟
چیئرمین پی ٹی اے نے کہا کہ ہمیں وفاقی حکومت، وزارت داخلہ یا عدالت ہدایات دیتے ہیں، ہمارے پاس شکایات آتی ہے تو ہم اس کا موازنہ کرتے ہیں، اگر سوشل میڈیا پر کوئی ویڈیو آتی ہے تو اس کا قانون کے مطابق موازنہ کیا جاتا ہے پھر ریموو کرنے کی ہدایات کی جاتی ہیں، 97 ہزار ایسی ویب سائٹس بلاک کی ہیں جس میں پورونوگرافی ہوتی ہے۔
چیئرمین پی ٹی اے نے کہا کہ 2006 میں ویب مینجمنٹ سسٹم موجود تھا، مارچ 2019 میں فائر وال کا نظام منظور ہوا تھا۔ 2019 میں اس سسٹم کی اپ گریڈیشن شروع کی گئی، اسے پہلے ڈبلیو ایم ایس کہتے تھے جسے مارچ 2019 میں نیشن فائر وال سسٹم کا نام دیا ہے، اسے سسٹم کہیں فائر یا کوئی اور نام دیا جاتا ہے ہمارے ہاں اسے ویب مینجمنٹ سسٹم کہتے ہیں۔