|
اسلام آباد — پاکستان میں وفاقی سرکاری ملازمتوں میں اقلیتی کوٹے پر مکمل طور پر عمل درآمد نہ ہونے کی نشان دہی کی گئی ہے۔
حال ہی میں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے 2023-2022 کے حوالے سے ایک رپورٹ جاری کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کے محکموں میں موجود وفاقی سرکاری اقلیتی ملازمین میں سے 91.19 فی صد ملازمین کا تعلق کرسچن کمیونٹی سے ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں کی 62 فی صد آبادی سندھ اور 33 فی صد آباد صوبہ پنجاب میں رہتی ہے۔
تاہم وفاق میں اقلیتی ملازمین میں صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے ملازمین کی تعداد 59 فی صد اور صوبہ سندھ سے تعلق رکھنے والے ملازمین 23 فی صد ہیں۔
وفاقی حکومت نے پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں کے لیے وفاقی سرکاری ملازمتوں میں پانچ فی صد کوٹہ مختص کر رکھا ہے۔ مگر سرکاری رپورٹ میں اقلیتی ملازمین کی بتائی گئی تعداد سے نشاندہی ہوتی ہے کہ مجموعی وفاقی سرکاری ملازمتوں میں موجود اقلیتی ملازمین کی تعداد 3.31 فی صد ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وفاقی حکومت، خودمختار، آئینی اداروں اور کارپوریشنز میں کام کرنے والے سرکاری ملازمین کی مجموعی تعداد نو لاکھ 47 ہزار 610 ہے۔
وفاقی حکومت کے ماتحت اداروں اور آئینی اداروں میں پانچ لاکھ 90 ہزار 585 جب کہ خودمختار، نیم خود مختار اداروں اور کارپوریشنز میں کام کرنے والے تین لاکھ 57 ہزار 25 ملازمین شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت، ماتحت اداروں اور آئینی اداروں میں کام کرنے والے اقلیتی ملازمین کی تعداد 20 ہزار 457 ہے۔ خود مختار، نیم خود مختار اور کارپوریشنز میں 11 ہزار 66 اقلیتی ملازمین کام کر رہے ہیں۔
اس طرح وفاقی سرکاری اقلیتی ملازمین کی مجموعی تعداد 31 ہزار 523 بنتی ہے۔
ماہرین کے مطابق وفاقی حکومت میں کام کرنے والے مجموعی وفاقی ملازمین میں پانچ فی صد کوٹے کے حساب سے اقلیتی ملازمین کی تعداد 47 ہزار 380 ہونی چاہیے۔ مگر یہ 3.31 فی صد بنتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت، حکومت کے ماتحت اداروں، آئینی، خودمختار اداروں اور کارپوریشنز میں کام کرنے والے اقلیتی ملازمین کی مجموعی تعداد 31 ہزار 523 ہے جس میں خودمختار اداروں میں 11 ہزار 66 اور وفاقی حکومت میں کام کرنے والے اقلیتی ملازمین کی تعداد 20 ہزار 457 ہے۔
وفاقی حکومت میں کام کرنے والے مجموعی اقلیتی ملازمین میں کرسچن ملازمین کی تعداد 91.19 فی صد ہے۔
خود مختار اداروں، کارپوریشنز میں کام کرنے والے اقلیتی ملازمین میں کرسچن 83.50 فی صد ہیں خودمختار اداروں میں کرسچن افسران اور ملازمین کی تعداد 9240 ہے۔
وفاقی حکومت کے مسیحی ملازمین کی تعداد 18 ہزار 544 ہے جب کہ خود مختار اداروں اور کارپوریشنز میں کام کرنے والے مسیحی افراد کی تعداد نو ہزار 240 ہے۔
احمدی وفاقی ملازمین کی تعداد کتنی ہے؟
احمدی کمیونٹی کے ملازمین کی مجموعی تعداد 421 بتائی گئی ہے۔
حکومتی رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت میں 175 احمدی ملازمین کام کر رہے ہیں جن میں گریڈ 17 سے 22 تک کے 38 افسران اور گریڈ ایک سے 16 تک 137 ملازمین شامل ہیں۔
اس طرح خودمختار اداروں اور کارپوریشنز میں احمدی کمیونٹی کے ملازمین کی تعداد 246 ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وفاقی حکومت میں کام کرنے والے اقلیتی ملازمین میں ہندو کاسٹ کے ملازمین کی مجموعی تعداد دو ہزار 521 ہے۔
وفاقی حکومت میں گریڈ 17 سے 22 تک 68 اور گریڈ ایک سے گریڈ 16 تک 1270 ملازمین شامل ہیں۔ خود مختار اداروں اور کارپوریشنز میں ہندو کاسٹ سے تعلق رکھنے والے ملازمین کی تعداد 1183 ہے۔
سکھ کمیونٹی
وفاقی حکومت کی رپورٹ کے مطابق وفاقی اقلیتی ملازمین میں سکھ کمیونٹی کے مجموعی ملازمین کی تعداد صرف 57 ہے جس میں وفاقی حکومت میں کام کرنے والے سکھوں کی تعداد صرف 23 ہے جن میں گریڈ 17 میں چار افسران اور گریڈ ایک سے 16 تک کے 19 ملازمین شامل ہیں۔
خود مختار اداروں اور کارپوریشنز میں کام کرنے والے سکھ ملازمین کی تعداد 34 ہے۔ اس طرح وفاقی حکومت میں کام کرنے والی دیگر اقلیتوں سے مجموعی 30 ملازمین کام کر رہے ہیں جن میں وفاقی حکومت میں 18 اور خودمختار اداروں اور کارپوریشنز میں 12 ملازمین ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ ڈویزن کے ایک افسر نے نام شائع نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مجموعی وفاقی ملازمین کی تعداد سے اقلیت کا پانچ فی صد کوٹہ تیکنیکی طور پر نہیں نکالا جا سکتا۔ کیوں کے میرٹ پر ہونے والی بھرتیوں، ترقیوں، مختصر مدت کے لیے ہونے والی بھرتیوں پر کوٹہ اپلائی نہیں ہوتا۔
اقلیتی کوٹے پر عمل درآمد کا مطالبہ
حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی کیھل داس کوہستانی کہتے ہیں کہ ملازمتوں میں اقلیتی کوٹے پر وفاق کے ساتھ صوبائی حکومتوں میں بھی عمل درآمد نہیں ہو رہا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ملازمتوں میں اقلیتی کوٹے پر عمل درآمد ہونا چاہیے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ایک تو اقلیتوں کے لیے قوانین بنتے نہیں اگر کچھ قوانین بن بھی جاتے ہیں تو ان پر عمل درآمد نہیں ہوتا ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) اقلیتی ونگ کے صدر اور سابق رُکن اسمبلی لال چند مالھی کہتے ہیں کہ اقلیتی کوٹے پر عمل درآمد کی باتیں دہائیوں سے کی جارہی ہیں۔ مگر تاحال عمل درآمد نہیں ہو رہا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کے کرسچن ملازمین کی تعداد دیگر اقلیتوں سے اس لیے زیادہ ہے کہ صفائی کے لیے گریڈ ایک میں سب سے زیادہ ملازمین کرسچن ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اقلیتوں کے کوٹے پر عمل درآمد نہیں ہو رہا ہے جس پر عمل درآمد ہونا چاہیے۔