|
کراچی — پاکستان کے آئین میں 26ویں ترمیم منظور ہونے سے قبل آئینی عدالت کے قیام کا بہت چرچا تھا۔ خاص طور پر پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اس خیال کے سب سے بڑے وکیل بن کر سامنے آئے۔
وفاق اور صوبوں میں آئینی عدالت کے قیام کے لیے بلاول بھٹو زرداری نے پاکستان کی عدالتی تاریخ سے جسٹس دراب پٹیل کا حوالہ دیا۔ ان کے بقول انہوں نے اپنے تجربے سے ملک میں آئینی عدالت کی ضرورت محسوس کرلی تھی جسے وقت نے درست ثابت کیا۔
پاکستان کے آئین میں کی گئی 26 ویں ترمیم میں آئینی عدالتیں تو قائم نہیں کی گئیں بلکہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے اندر اور اس کے ججوں پر مشتمل آئینی بینچ بنایا جائے گا۔
البتہ اس ترمیم سے قبل ہونے والی بحث سے جسٹس پٹیل کا نام سامنے آیا جو آئینی عدالت کی تجویز سے ہٹ کر بھی کئی حوالوں سے پاکستان کی عدالتی تاریخ میں اہم شخصیت سمجھے جاتے ہیں۔
جسٹس دراب پٹیل کون تھے؟
جسٹس دراب پٹیل کوئٹہ کے ایک پارسی گھرانے میں پیدا ہوئے اور انہوں نے اعلیٰ تعلیم ممبئی سے حاصل کی تھی۔ جسٹس دراب پٹیل پہلی بار 1967 میں مغربی پاکستان ہائی کورٹ اور نو سال بعد 1976 میں سپریم کورٹ کے جج بنے۔
جنرل ضیاالحق نے جب منتخب وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹ کر جولائی 1977 میں مارشل لاء لگایا تو اس کے بعد عدلیہ پر بھی اپنی گرفت مضبوط کرنا شروع کی۔
مارشل لا کو طول دینے کے لیے جنرل ضیا نے 1981 میں عبوری آئینی حکم نامہ یعنی پی سی او جاری کیا۔ جن ججز نے پی سی او کے حلف لینے سے انکار کیا انہیں برطرف کردیا گیا۔ بھٹو کیس کے بعد یہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے لیے ایک اور آزمائش تھی جس میں بھی چند ہی ججز سرخرو ہوئے۔
اس آزمائش میں جسٹس دراب پٹیل سرخرو ثابت ہوئے اور ایسے وقت میں پی سی او کے تحت حلف لینے سے انکار کرکے منصب چھوڑ دیا جب وہ پاکستان کے چیف جسٹس بن سکتے تھے۔
ماہر وکیل اور مصنف حامد خان اپنی کتاب ’کونسٹیٹوشنل اینڈ پولیٹیکل ہسٹری آف پاکستان‘ میں لکھتے ہیں کہ دراب پٹیل نے غیر معمولی جرات کا مظاہرہ کیا۔ اگر وہ حلف اٹھا لیتے تو یقیناً وہ آٹھ سے نو سال تک چیف جسٹس کے عہدے پر برقرار رہ سکتے تھے۔
ان کے مطابق جسٹس پٹیل نے اصولوں کی خاطر عہدہ قبول کرنے سے انکار کیا اور ایسی جرأت دکھائی جس کی مثال پاکستانی ججز میں کم ہی ملتی ہے۔
دراپ پٹیل کے علاوہ پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کرنے والے ایک اور جج جسٹس فخر الدین جی ابراہیم تھے۔
معروف صحافی سہیل وڑائچ کو 1999 میں دیے گئے ایک انٹرویو میں جسٹس فخر الدین نے بتایا تھا کہ جسٹس دراب پٹیل کے انکار سے انہیں بھی حوصلہ ملا اور انہوں اس غیر آئینی اقدام کو تسلیم نہیں کیا۔ منصب چھوڑ کر دونوں ساتھ ہی کراچی لوٹ آئے۔
دراب پٹیل کی شخصیت پر تبصرہ کرتے ہوئے جسٹس فخر الدین جی ابراہیم کے فرزند اور سابق ایڈیشنل اتارنی جنرل زاہد ابرہیم کا کہنا تھا کہ ان کے والد اور جسٹس پٹیل کو اس وقت کی فوجی حکومت کی جانب سے کئی آفرز بھی دی گئیں لیکن انہوں نے اصولوں پر سمجھوتا کرنے سے صاف انکار کردیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے بے داغ کردار کے مالک ہونے کی وجہ سے لوگ انہیں مدتوں بعد بھی یاد رکھے ہوئے ہیں۔
بھٹو کیس اور دراب پٹیل
جسٹس دراب کی ایک اور وجۂ شہرت بھٹو کیس بھی ہے۔ وہ ان ججز میں شامل تھے جنھوں نے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کے خلاف دائر کی گئی نظر ثانی کو مسترد کرنے کے متازع اکثریتی فیصلے سے اتفاق نہیں کیا تھا۔
سہیل وڑائچ اپنی کتاب ’عدلیہ کے عروج و زوال کی کہانی‘ میں لکھتے ہیں کہ محمد احمد خان کیس جس میں بھٹو کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی، سپریم کورٹ کے تین ججوں یعنی محمد حلیم، صفدر شاہ اور دراب پٹیل نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرکے اندھیری رات میں دیئے جلانے کی کوشش ضرور کی تھی۔
خود دراب پٹیل نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ کیس میں بھٹو کے خلاف شہادتیں کافی کمزور تھیں اور یہ کیس بہت سادہ تھا۔ ان کے خلاف جرم کہیں سے ثابت نہیں ہو رہا تھا اس لیے انہوں نے بغیر کسی دباؤ کے یہ فیصلہ دیا تھا۔ بھٹو کیس میں دائر کی گئی اپیل پر جسٹس پٹیل، جسٹس صفدر شاہ اور جسٹس محمد حلیم وہ تین ججز تھے جن کی رائے میں ذوالفقار علی بھٹو پر جرم ثابت نہیں ہوا۔
بطور ہائی کورٹ جج بھی دراب پٹیل نے کئی کیسز میں انسانی حقوق، آزادئ اظہار اور شہری حقوق کے تحفظ کے لیے اقدامات کا حکم دیا۔
ایک مشہور کیس میں صوبائی مارشل لا حکام کی جانب سے پریس اینڈ پبلی کیشن آرڈیننس کے ذریعے دو اخبارات ’مہران‘ اور ’جسارت‘ پر پابندی کو یہ کہہ کر کالعدم قرار دیا تھا کہ لوگوں کی آزادیٔ اظہار ان کا بنیادی حق ہے۔ اسے کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور یہ تحفظ خود آئین پاکستان نے دے رکھا ہے۔
آئینی عدالت کی تجویز
عدالت سے باہر بھی جسٹس دراب پٹیل نے انسانی حقوق کے کارکن کے طور پر کام کیا اور انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے قیام میں بھی اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔
جسٹس دراب پٹیل نے ملک کے آئینی و سیاسی مسائل کے حل کے لیے آئینی عدالت کے قیام کی تجویز بھی دی تھی۔ اور اسی تجویز کو حوالہ بناتے ہوئے چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے بھی اپنے بیان میں کہا تھا کہ جسٹس دراب پٹیل کے تجربے نے ظاہر کیا ہے کہ پاکستان میں آئینی عدالتوں کی ضرورت ہے۔
لیکن انسانی حقوق کمیشن پاکستان کی سابق چیئرپرسن اور جسٹس دراب پٹیل کے ساتھ کام کرنے والی زہرہ یوسف کا خیال اس سے مختلف ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب جنرل ضیاء الحق نے آئین میں کئی ترامیم کر ڈالیں جس سے 1973 کے آئین کا حلیہ بگڑ کیا تو ان حالات میں انسانی حقوق کمیشن نے کئی مذاکروں کا اہتمام کیا تھا۔ اس میں جنوبی افریقہ کی آئینی عدالت کے جج بھی ان مذاکروں میں شرکت کے لیے آئے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ ایسے میں جسٹس پٹیل نے بطور چیئرمین انسانی حقوق کمیشن رائے دی تھی کہ پاکستان کے موجودہ مسائل کے حل کے لیے علیحدہ آئینی عدالتوں کا قیام ضروری ہے۔
زہرہ یوسف نے اصرار کیا کہ دراب پٹیل کی تجویز مخصوص حالات کے لیے تھی جس پر اس وقت عمل درآمد ہونا ناممکن ہے کیوں کہ اب حالات آئینی عدالتوں کے قیام سے ٹھیک نہیں ہوں گے۔
زہرہ یوسف نے بتایا کہ جب جنرل ضیاء الحق نے توہینِ مذہب کے قوانین میں تبدیلیاں متعارف کرائیں تو بھی دراب پٹیل نے ان ترامیم کے خلاف کھل کر اظہار خیال کیا اور اسے معاشرے کے لیے نقصان دہ قرار دیا تھا۔
ان کے بقول آج یہ بات ثابت ہورہی ہے کہ ضیاء الحق کے دور میں متعارف کرائی گئی تبدیلیوں کے منفی اثرات سے توہین مذہب کے جھوٹے الزامات ملک میں کس قدر بڑا مسئلہ بن چکے ہیں۔