بین الاقوامی میڈیا میں پاکستان میں عام انتخابات کو جہاں ملک کو درپیش مسائل کے تناظر میں اہم قرار دے رہے ہیں۔ وہیں ان انتخابات کی ساکھ کے حوالے سے کئی سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔
جوپری ہتھیاروں سے لیس ملک کو زیادہ تر اخبارات اور نشریاتی اداروں نے مغرب کا مشکلات میں گھرا حلیف قرار دیا ہے جہاں ایسے وقت میں انتخابات ہو رہے ہیں جب اسے سیاسی عدم استحکام، اقتصادی مسائل، دہشت گردی اور سکیورٹی کی بگڑتی صورتِ حال کا سامنا ہے۔
ساتھ ہی تجزیاتی رپورٹس میں فوج کی سیاست میں مبینہ مداخلت، تحریکِ انصاف کی شرکت کو محدود کرنے اور مسلم لیگ (ن) کے لیے بظاہر سازگار ماحول بنانے کی نشان دہی کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 2024 کا الیکشن تضادات کا شکار ہے اور یہ انتخابات انتہائی متنازع دکھائی دے رہے ہیں۔
امریکہ کے اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ نے ایک رپورٹ میں کہا کہ الیکشن 2024 عسکریت پسندوں کے حملوں اور انتخابی عمل کے غیر منصفانہ ہونے کی شکایت کے سائے تلے ہو رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ملک میں گہری سیاسی تقسیم ظاہر کرتی ہے کہ انتخابات کے نتیجے میں ایک اتحادی حکومت اقتدار میں آئے گی۔
اخبار نے پاکستان کی جنوبی ایشیا میں اہم جیو اسٹریٹجک محل وقوع کے حوالے سے کہا کہ ملک کی سرحدیں افغانستان، چین، بھارت اور ایران سے ملتی ہیں۔ اس خطے میں تعلقات اور سرحدوں پر معاملات بہت کشیدہ ہیں۔
الیکشن ماحول کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جیل میں قید سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی جماعت تحریکِ انصاف کے امیدواروں کو آزادانہ مہم چلانے کا موقع نہیں ملا جس کے سبب انتخابی عمل پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔
اخبار نے لندن میں قائم تھنک ٹینک ’چیتھم ہاؤس‘ کی ماہر فرزانہ شیخ کے حوالے سے کہا کہ عمران خان کی جماعت کو توڑنے سے یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ ان انتخابات کا نتیجہ پہلے سے ہی متعین کر لیا گیا ہے۔ دوسری طرف سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے لیے راستہ صاف دکھائی دیتا ہے۔
رپورٹ میں اقوامِ متحدہ کے جانب سے پی ٹی آئی کے خلاف ہراساں کرنے کے اقدامات کا بھی حوالہ دیا گیا ہے ۔
اخبار نے یہ بھی وضاحت کی ہے کہ حکام ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
امریکی اخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ نے ایک تجزیاتی رپورٹ میں کہا کہ ماہرین کی نظر میں یہ الیکشن ملکی تاریخ میں سب سے کم قابلِ اعتبار ہوں گے۔
اس سلسلے میں اخبار نے مزید لکھا کہ ووٹنگ سے چند دن پہلے عمران خان، جنہیں 2022 میں وزیرِ اعظم کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا، کو دو الگ الگ فیصلوں میں مجموعی طور پر 24 سال قید کی سزا سنائی گئی۔
اخبار کے مطابق ان سزاؤں کو عمران خان کی سیاسی جماعت کو ایک طرف کرنے کے لیے فوج کی زیرِ قیادت مبینہ مہم کے حصے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
سیکیورٹی چیلنجز کے حوالے سے اخبار نے الیکشن سے ایک روز قبل بلوچستان میں دو مقامات پر دھماکوں میں دو درجن افراد کی ہلاکت کے ضمن میں کہا کہ ملک میں تناؤ کی صورت حال ہے۔
نیو یارک ٹائمز نے انتخابات کی اہمیت کے بارے میں لکھا کہ ان کے ذریعے پاکستان کی تاریخ میں سویلین حکومتوں کے درمیان یہ صرف تیسری جمہوری منتقلی ہوگی۔
ٹائمز کے بقول ملک کا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے لوگ 2022 میں عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے کیوں کہ 76 سال کے دوران ملک کی تاریخ میں اس صوبے کو فوج کا گڑھ کہا جاتا رہا ہے۔
امریکی کے نشریاتی ادارے ’سی این این‘ نے ایک رپورٹ میں تبصرہ کیا کہ عمران خان کی الیکشن سے باہر ہونے کے بعد اب مقابلہ پاکستان کے دو سیاسی خاندانوں کے درمیان نظر آتا ہے جن میں تین بار وزیرِ اعظم رہنے والے نواز شریف اور سابق وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو کے فرزند بلاول بھٹو زرداری امیدوار ہیں۔
نشریاتی ادارے نے اپنی رپورٹ میں پی ٹی آئی کے خلاف حکومتی اقدامات اور انتخابات سے پہلے مبینہ دھاندلی کا ذکر بھی کیا ہے۔
سی این این نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کی فوج اور نگراں حکومت نے عمران خان کی جماعت کو دبانے کے الزامات کو مسترد کیا ہے۔
قطر کے نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ نے ایک رپورٹ میں الیکشن کے دن موبائل فون اور انٹرنیٹ سروسز کی معطلی کے حوالے سے کہا کہ اس سے پاکستانی حکومت کی ساکھ کو نقصان پہنچ رہا ہے کیوں کہ لوگ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات چاہتے ہیں۔
برطانیہ کے اخبار ’انڈیپینڈنٹ‘ نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ سیاسی رہنماؤں کی گرفتاریاں اور عمران خان کے خلاف قانونی اقدامات کی شدت کی مثال نہیں ملتی۔
رپورٹ میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما نواز شریف اور پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو زرداری کی ملک کے مختلف حصوں میں عوام کی جانب سے سیاسی حمایت کے بارے ذکر کیا گیا ہے۔
اخبار کے مطابق انتخابات کے ذریعہ اقتدار میں آنے والی حکومت کے لیے ملکی معیشت کی بحالی اور پاکستان کے پڑوسی ممالک سے تعلقات میں بہتری بڑے چیلنجز ہوں گے۔
بھارتی اخبار ’ٹائمز آف انڈیا‘ نے بھارت کے پاکستان میں سابقہ ہائی کمشنر اجے بساریہ کا انتخابات کے حوالے سے انٹرویو کیا۔
سابق سفیر نے تبصرہ کیا کہ آٹھ فروری کے انتخابات میں دھاندلی عیاں ہے۔ یہ الیکشن کے بجائے سلیکشن نظر آتے ہیں کیونکہ ایک من پسند حکومت کو اقتدار میں لانے کے لیے انتخابات سے پہلے ہی مبینہ طور پر دھاندلی کی گئی ہے۔