Saturday, January 4, 2025
ہومPakistanپاکستان کے سب سے بڑے جوہری بجلی گھر کی تعمیر؛ سی فائیو...

پاکستان کے سب سے بڑے جوہری بجلی گھر کی تعمیر؛ سی فائیو منصوبہ ہے کیا؟


  • اس منصوبے کے مکمل ہونے سے پاکستان کی جوہری توانائی سے بجلی بنانے کی صلاحیت چار ہزار 760 میگاواٹ ہو جائے گی۔
  • قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی پہلے ہی سی-5 کی منظوری دے چکی ہے، یہ پلانٹ 3.7 ارب ڈالر کی لاگت سے تعمیر کیا جائے گا۔
  • تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کا نیوکلئیر ٹیکنالوجی سے متعلق بہترین ریکارڈ ہے اور چین کے ساتھ بجلی کی پیداوار کے لیے پاکستان کا تعاون بہت اہم ہے۔
  • پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ 2030 تک پاکستان نے ایٹمی توانائی سے آٹھ ہزار 800 میگاواٹ بجلی ایٹمی توانائی سے حاصل کرنی ہے: ریسرچر غزالہ یاسمین

اسلام آباد — پاکستان کی حکومت نے چشمہ نیوکلیئر پاور پراجیکٹ یونٹ 5 (سی 5) کی تعمیر کا آغاز کر دیا ہے جس سے 1200 میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکے گی۔

اس منصوبے کے مکمل ہونے سے پاکستان کی جوہری توانائی سے بجلی بنانے کی صلاحیت چار ہزار 760 میگاواٹ ہو جائے گی۔ یونٹ 5 (سی فائیو) کی پہلی کنکریٹ کی تقریب پیر کو چشمہ (میانوالی) میں منعقد ہوئی۔

قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی پہلے ہی سی-5 کی منظوری دے چکی ہے، یہ پلانٹ 3.7 ارب ڈالر کی لاگت سے تعمیر کیا جائے گا۔

اس سے قبل پاکستان اٹامک انرجی کمیشن نے رواں سال اپریل میں چشمہ نیو کلیئر پاور پلانٹ فائیو کے تعمیراتی لائسنس کے لیے درخواست دی تھی جس کے ساتھ ابتدائی حفاظتی جائزہ رپورٹ اور آپریشنل پہلوؤں سمیت دیگر ضروری دستاویزات بھی جمع کروائی گئی تھیں۔

ان دستاویزات میں جوہری مواد کے محفوظ استعمال، تابکاری سے تحفظ، ہنگامی صورتِ حال سے نمٹنے، تابکار فضلے کو ٹھکانے لگانے اور نیوکلیئر سکیورٹی جیسے پہلو شامل تھے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کا نیوکلئیر ٹیکنالوجی سے متعلق بہترین ریکارڈ ہے اور چین کے ساتھ بجلی کی پیداوار کے لیے پاکستان کا تعاون بہت اہم ہے۔ پاکستان میں کام کرنے والے تمام پاور پلانٹس چین کے تعاون سے ہی چلائے جا رہے ہیں۔

سی فائیو چینی ہوالونگ ڈیزائن کا ایک جدید تھرڈ جنریشن کا پریشرائزڈ واٹر ری ایکٹر ہے جس میں فعال اور غیر فعال حفاظتی خصوصیات شامل ہیں۔

اس میں ڈبل شیل کنٹینمنٹ اور ری ایکٹر فلٹرڈ وینٹنگ سسٹم بھی شامل ہے۔ اس ڈیزائن کے ساتھ یہ پاکستان کا تیسرا نیوکلیئر پاور پلانٹ ہے۔ کراچی میں کینوپ نیوکلیئر پاور پلانٹس یونٹ 2 اور 3 پہلے ہی آپریشنل ہیں۔

پاکستان نیوکلیئر ریگولیٹری اتھارٹی (پی این آر اے) کی جانب سے لائسنس جاری کیے جانے کے بعد پاکستان اٹامک انرجی کمیشن (پی اے ای سی) نے اس تقریب کی منصوبہ بندی کی تھی جس کے تحت تعمیراتی مرحلے کو باضابطہ طور پر شروع کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔

افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا کہ چین کے تعاون سے سی فائیو جیسے میگا پراجیکٹس کی ترقی پاکستان کی معیشت پر چینی قیادت کے اعتماد اور بھروسے کی عکاسی کرتی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ یہ سرمایہ کاری توانائی کے شعبے کو مضبوط کرتی ہے اور بڑے پیمانے پر بنیادی ڈھانچے اور تیکنیکی منصوبوں میں ایک قابلِ اعتماد شراکت دار کے طور پر پاکستان کی صلاحیت کو ظاہر کرتی ہے۔

احسن اقبال کا کہنا تھا کہ 1200 میگا واٹ صلاحیت کے حامل سی فائیو کے اضافے سے جوہری توانائی کے شعبے میں مزید اضافہ ہو گا اور پاکستان کی توانائی کی حکمتِ عملی کی بنیاد کے طور پر اس کی پوزیشن مستحکم ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان کے نیوکلیئر پاور پلانٹس بشمول چشمہ کے 4 آپریشنل یونٹس (سی 1، سی 2، سی 3 اور سی 4) اور کراچی میں دو پاور پلانٹس نیشنل گرڈ میں 3530 میگاواٹ سے زائد کا حصہ ڈال رہے ہیں۔

‘پاکستان 2050 تک جوہری توانائی سے 35 فی صد بجلی بنانا چاہتا ہے’

انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز کی ریسرچر غزالہ یاسمین کہتی ہیں کہ اس منصوبے سے پاکستان کو بہت زیادہ فائدہ پہنچے گا۔

اُن کے بقول اس سے قبل پاکستان کے چھ منصوبے چل رہے ہیں اور اب یہ ساتواں منصوبہ پاکستان میں 1200 میگاواٹ بجلی پیدا کر سکے گا۔

غزالہ یاسمین کہتی ہیں کہ اس وقت پاکستان میں استعمال ہونے والی بجلی کا 12.5 فی صد ایٹمی توانائی سے حاصل کیا جاتا ہے۔ اس منصوبے سے اس میں مزید اضافہ ہو گا۔

پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ 2030 تک پاکستان نے ایٹمی توانائی سے آٹھ ہزار 800 میگاواٹ بجلی ایٹمی توانائی سے حاصل کرنی ہے۔

پاکستان نیٹ زیرو کاربن ایمیشن پر بھی کام کر رہا ہے اور ایسے منصوبے کاربن کے اخراج کو روکنے میں بہت زیادہ معاون ثابت ہوں گے۔

اس وقت پاکستان میں اگرچہ 12.5 فی صد توانائی نیوکلیئر سے ہو رہی ہے لیکن پاکستان 2050 تک اس کو بڑھا کر 35 فی صد تک کرنا چاہتا ہے۔

غزالہ یاسمین نے کہا کہ چین کی ٹیکنالوجی دنیا میں بہترین سمجھی جاتی ہے، ہمارے سب پاور پلانٹس میں چین نے معاونت کی ہے۔

اُن کے بقول اس وقت اس معاملے پر سیاست کی جاتی ہے اور دنیا نہیں چاہتی کہ پاکستان کو یہ ٹیکنالوجی ملے۔ لیکن چین کے ساتھ ہمارے دوستانہ تعلقات کی وجہ سے یہ ٹیکنالوجی ہمیں مل رہی ہے۔

دفاعی تجزیہ کار لیفٹننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی کہتے ہیں کہ پاکستان کا کمانڈ اینڈ کنٹرول نظام بہت اعلیٰ ہے۔ پرامن کلین انرجی کے لیے پاکستان کے پلانٹس نے ہمیشہ سے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ یہ 100 فی صد گرین انرجی تو نہیں کیوں کہ اس کا ویسٹ میٹریل خاصا خطرناک ہوتا ہے۔ لیکن اس کو تلف کرنے کا پاکستان کا نظام بھی بہت اچھا ہے جس کی وجہ سے پاکستان پر آج تک کوئی اعتراض نہیں اٹھایا گیا۔

چین کے ساتھ بجلی کی پیداوار کے لیے پلانٹس کی تنصیب کے بارے میں ایک سوال پر نعیم خالد لودھی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں چین کے پلانٹس ایک عرصے سے کام کر رہے ہیں اور ان میں کوئی بھی مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔

اُن کے بقول پاکستان کے انجینئرز اور ماہرین بھی اس ٹیکنالوجی سے مکمل طور پر آگاہ ہیں اور تربیت یافتہ ہیں۔ ایسے میں کسی اور ملک سے یہ ٹیکنالوجی لینے پر پاکستان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے ترجمان شاہد ریاض خان کہتے ہیں کہ یہ منصوبہ 2030 تک مکمل ہو گا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اس کی پیداوار شروع ہونے پر نہ صرف بجلی کے فی یونٹ نرخ میں کمی آئے گی۔ بلکہ کاربن کی اخراج میں بھی نمایاں کمی ہو گی۔

اُن کے بقول اگر ایٹمی توانائی کے بجائے کوئلے یا کسی اور ذریعے سے یہ بجلی بنائی جاتی تو سو ملین ٹن تک کاربن کا اخراج ہوتا۔ اس سے ظاہر ہوتا کہ کاربن کے اخراج کو روکنے کے لیے ایٹمی توانائی کس قدر اہم ہے۔

شاہد ریاض خان کا مزید کہنا تھا کہ ہم 2050 تک 40 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اگر اسی طرح نیوکلیئر پلانٹس لگتے رہے تو ہدف کے قریب پہنچ جائیں گے۔



Source

RELATED ARTICLES

اپنی رائے کا اظہار کریں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

مقبول خبریں