کراچی ( خصوصی رپورٹ ) پرانے حکمرانوں پر مبنی ایک نئے سیٹ اپ نے کام شروع کردیا ہے۔ اچھی بات ہے کہ مقتدرہ بھی ایک صفحے پر ہے بلکہ سرپرست ہے۔ اسلئے ہم خاک نشینوں کیلئے یہی مناسب ہے کہ ’’بہترین کی امید کرتے ہوئے بد ترین کیلئے تیار رہیں۔‘‘وزیر اعظم سچ کیوں بول رہے ہیں؟سینئر تجزیہ کار وکالم نگار محمود شام بھی بول پڑے ۔
“جنگ ” میں شائع ہونیوالے اپنے کالم میں انہوں نےلکھا کہ اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نہ کوئی رمز ہوگی۔ پورے پاکستان میں رمضان کا چاند سب نے از خود دیکھ لیا۔ رویت ہلال کمیٹی کا محتاج نہیں بنایا ۔ کمیٹی کے اعلان سے پہلے ہی پاکستانی ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہے تھے۔ ہم عین اس وقت ایک کارخیر کیلئے کراچی کی ایک کچی بستی کی طرف جارہے تھے کہ چاند نے از خود افق سے ہمیں متوجہ کرلیا۔ بہت واضح۔ بہت روشن۔ ذہن میں ایک روشنی ابھری کہ اب ہمارا مستقبل بھی اتنا ہی واضح اور اتنا ہی روشن ہونے والا ہے۔ ان شاء اللہ۔ گاڑی میں ہم ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے تھے۔
مسجدوں کی رونقیں یکدم بڑھ گئیں۔ ان میں کھیلتے بچے بھی تھے۔ لڑکپن کے مزے اٹھاتے نو عمر بھی۔ امید و خوف کی پٹی پر کھڑے نوجوان بھی اورپنج وقتہ نمازی بھی۔ رونق اسی عمر کے پاکستانی بڑھارہے تھے۔ جو 8 فروری کو نکلے تھے۔ وہاں ان کے گوہر مقصود کے حصول میں رکاوٹیں ڈال دی گئی تھیں۔ لیکن یہاں ان کے رکوع و سجود میں کوئی ناکہ بندی کرنے والا نہیں تھا۔ عابد اور معبود کے درمیان کوئی حائل نہیں تھا۔ دعائیں براہِ راست آسماں تک جارہی تھیں۔ ایک دُعا سب کے دل سے چاند دیکھنے سے تراویح میں قرآن پاک سننے تک نکل رہی تھی کہ اے خدائے قدیر و کبیر۔ فلسطینیوں کو اسرائیلی بربریت سے نجات دلا، کسی نے فیس بک پر آفاقی جملہ تحریر کیا ہے ’’ سحر و افطار تو بادشاہوں اور متمول مسلمانوں کیلئے ہیں۔ ہم فلسطینی تو صرف روزے رکھ رہے ہیں۔‘‘
کالم میں محمود شام نے مزید لکھا کہ ہمارا وطن جوان ہے۔ 60فی صد آبادی 15سے 35 سال کے درمیان عمر کی ہے۔ خواب دیکھنے والے۔ مستقبل کیلئے ہمت توانائی رکھنے والے۔ انکے دست و بازو کی طاقت۔ ذہن کی صلاحیتیں اگر منظم طریقے سے ملکی استحکام کیلئے استعمال کی جائیں تو وہ صبح حسیں جلد طلوع ہوسکتی ہے۔ جس کی آرزو اقبال،قائد اعظم،لیاقت علی خان،فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، حفیظ جالندھری، حبیب جالب،استاد دامن،گل خان نصیر،فارغ بخاری، شیخ ایاز نے کی تھی۔ مگر نہ جانے ہم اس صبح سے کیوں ڈرتے ہیں۔ہمارے وزیر اعظم شہباز شریف نہ جانے کیوں سچ بول رہے ہیں۔ مجھے ان کی صاف گوئی میں ان کیلئے کچھ خطرات نظر آرہے ہیں۔ مگر وہ کہہ صحیح رہے ہیں۔ ’’اب یا کبھی نہیں۔‘‘
اشرافیہ کو ان سے زیادہ کون جانتا ہوگا ۔ ببانگ دہل کہہ رہے ہیں۔’’مٹھی بھر اشرافیہ 90فیصد وسائل پر قابض ہے۔‘‘ بہت جرأتمندانہ سچ۔ سب سے بڑے صوبے کے کئی بار وزیرا علیٰ، دوسری بار وزیر اعظم، 3 بار وزارت عظمیٰ پر فائز رہنے والے کے چھوٹے بھائی، مقتدرہ کے محبوب، کیوں حقیقت بیانی کررہے ہیں۔ آخر ان کے ارادے کیا ہیں۔ فرمارہے ہیں کہ ’’ کیا جواز ہے کہ غریب مہنگائی میں پسے اور اشرافیہ کو سبسڈی ملے۔‘‘ پھر یہ اعداد و شُمار بھی دے رہے ہیں۔ گیس بجلی کا گردشی قرضہ 5ہزار ارب روپے سے زیادہ۔ اور ایک انتہائی تشویشناک حق گوئی کہ ’’سرکاری ملازمین کی تنخواہیں اُدھار لے کر دے رہے ہیں۔‘‘ ہمارے ماہر معیشت قیصر بنگالی یہی حقائق بیان کرتے ہیں تو ان کیخلاف مہم چل پڑتی ہے۔ معلوم نہیں کہ یہ بنگالی کیسے ہماری خاکستر میں ایک چنگاری بن کر باقی رہ گیا۔ ہم نے تو اس اکثریت سے نجات حاصل کرلی تھی۔ اکثریت ہمیں نہ مارچ 1971ءمیں قبول تھی اور نہ مارچ 2024 ءمیں۔
ہم رمضان کا چاند دیکھتے ہوئے کچی بستی میں پہنچ چکے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے تنوری ہوٹل، محلوں کی دکانوں کے درمیان ایک تنگ سی گلی میں ایک کوارٹر، اس میں رہتا ایک تنہا بزرگ صحافی، جس نے کتنے میڈیا ہاؤسز کی خدمت کی، عروج تک پہنچایا، غزل میں ہم نے ’کلبۂ احزاں‘ پڑھا تھا۔ اب خود دیکھ رہے تھے۔ ناصر کاظمی نے شاید ایسے کسی عالم میں کہا تھا۔
ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر
اداسی بال کھولے سورہی ہے
بیگم 2 ماہ پہلے کینسر سے جنگ لڑتے ہوئے چل بسیں۔ ان کے علاج میں سب کچھ بک گیا۔ 22سالہ بیٹا دو سال پہلے ایک ٹریفک حادثے کی نذر ہوگیا۔ دوبیٹیاں ایک جسمانی معذور۔ دوسری ذہنی معذور۔ ان سب کا مقابلہ کرتے یہ اکیلے۔
کالم کے آخر میں محمود شام نے لکھا کہ ہم صحافی، شاعر، اہل قلم کتنی جلد اپنے دن رات کے رفقاء کو بھول جاتے ہیں۔ ایک سمندر پار درد مند پاکستانی نے نشاندہی کی ۔ کسی صحافتی تنظیم کو علم نہیں تھا۔ یہ ویراں کوارٹر یا کھولی، صدر، وزیرا عظم، اپوزیشن لیڈر، کونسلر، میئر سب کو خبردار کررہی ہے کہ روز محشر وہ جواب دہ ہونگے۔ میں نے ان سے عرض کیا ہے کہ وہ اپنی سوانح لکھیں تاکہ اس سفاک معاشرے کی سنگدلی سامنے آئے۔ تمام اُتار چڑھاؤ، لاٹھی چارجوں، انتخابی نشان چھننے، جلسے جلوس نہ کرنے کے مراحل بڑی ’خوش اسلوبی‘ سے طے ہوگئے ہیں۔ ماضی کے حریفوں کو ملکی مفاد میں اکٹھا کرکے بٹھادیا گیا ہے۔ پرانے حکمرانوں پر مبنی ایک نئے سیٹ اپ نے کام شروع کردیا ہے۔ اچھی بات ہے کہ مقتدرہ بھی ایک صفحے پر ہے بلکہ سرپرست ہے۔ اسلئے ہم خاک نشینوں کیلئے یہی مناسب ہے کہ ’’بہترین کی امید کرتے ہوئے بد ترین کیلئے تیار رہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ برکتوں رحمتوں مغفرتوں کے مہینے کو اس عظیم مملکت میں انصاف کی بالادستی کا مہینہ بنائے۔