|
ویب ڈیسک _ پاکستان کی سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق پشاور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے فیصلے میں کہا ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) مخصوص نشستوں کی حق دار ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 13 رکنی فل کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی اپیل پر فیصلہ سنایا۔
سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ انتخابی نشان ختم ہونے سے کسی سیاسی جماعت کا الیکشن میں حصہ لینے کا حق ختم نہیں ہوتا۔ پی ٹی آئی 15 روز میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے فہرست جمع کرائے۔
سپریم کورٹ کے 13 ججز میں سے آٹھ نے فیصلے کی حمایت جب کہ پانچ نے اختلاف کیا ہے۔ چیف جسٹس کے مطابق فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا ہے۔
جن آٹھ ججز نے سنی اتحاد کونسل کے حق میں فیصلہ دیا ان میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس عرفان سعادت خان، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس محمد علی مظہر شامل ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان نے اکثریتی فیصلے کے خلاف فیصلہ دیا جب کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے فیصلے میں اختلافی نوٹ بھی شامل کیا ہے۔
‘سپریم کورٹ کا فیصلہ انصاف پر مبنی ہے’
تحریکِ انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ فل کورٹ نے پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں پر حق و انصاف پر مبنی فیصلہ دیا ہے اور آخر کار ہمیں اپنا حق مل گیا ہے۔
سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج جمہوری قوتوں کے لیے خوشی کا دن ہے۔ عوام نوافل ادا کریں اور رب کا شکر ادا کریں۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ آج سپریم کورٹ کے گیارہ ججز نے پی ٹی آئی کے حق میں فیصلہ دیا۔ عدالت نے کہا کہ پی ٹی آئی مخصوص نشستوں کی حق دار ہے۔
چیئرمین تحریک انصاف نے مزید کہا کہ وہ الیکشن کمیشن سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فوراً سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کرتے ہوئے پی ٹی آئی کو دوبارہ مخصوص نشستیں دے۔
سپریم کورٹ نے منگل کو سنی اتحاد کونسل کی درخواست پر سماعت مکمل کر لی تھی جس کے بعد تمام 13 ججز نے فیصلے سے متعلق دو مرتبہ مشاورت بھی کی تھی۔
وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر اپنے ردِعمل میں کہا ہے کہ مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے نے بہت سی کنفیوژن اور سوالات کو جنم دیا ہے۔ پی ٹی آئی اس کیس میں فریق نہیں تھی اور نہ ہی اس نے مخصوص نشستوں کا دعویٰ کیا تھا۔ لیکن بادی النظر میں ریلیف تحریک انصاف کو دیا گیا ہے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیرِ قانون نے کہا کہ عدالتی فیصلے سے حکومت کو کوئی خطرہ نہیں۔ وفاقی کابینہ کے فیصلے کے بغیر نہیں کہہ سکتا کہ نظرثانی اپیل دائر کی جائے گی۔
ان کے بقول مخصوص نشستوں کے کیس میں سنی اتحاد کونسل ریلیف مانگنے آئی تھی اور اسے کنول شوزب کی پٹیشن نے سپورٹ کیا۔
مخصوص نشستوں کا معاملہ کیا ہے؟
رواں برس آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں الیکشن کمیشن نے تحریکِ انصاف کو بطور جماعت الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ الیکشن کمیشن کا مؤقف تھا کہ پی ٹی آئی آئین کے تحت انٹرا پارٹی انتخابات کرانے میں ناکام رہی۔
انتخابات میں تحریکِ انصاف کے حمایت یافتہ اُمیدواروں نے آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لیا تھا جن کی بڑی تعداد انتخابات میں کامیاب ہوئی تھی۔ بعدازاں تحریکِ انصاف نے قومی اسمبلی میں سنی اتحاد کونسل کے ساتھ پارلیمانی اتحاد کر لیا تھا۔
جب خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کی تقسیم کا مرحلہ آیا تو کمیشن نے وہ نشستیں جو سنی اتحاد کونسل کے حصے میں آنا تھیں وہ دیگر جماعتوں میں تقسیم کر دی تھیں۔
سنی اتحاد کونسل نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ تاہم عدالت نے کمیشن کے فیصلے کو برقرار رکھا تھا جس کے خلاف سنی اتحاد کونسل نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
چھ مئی کو جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے پشاور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے کیس کو باقاعدہ سماعت کے لیے منظور کیا تھا۔
سنی اتحاد کونسل کا مؤقف تھا کہ الیکشن کمیشن نے خواتین اور اقلیتوں کی اسے ملنے والی 78 مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں میں تقسیم کر دی تھیں۔
الیکشن کمیشن کا مؤقف تھا کہ سنی اتحاد کونسل خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں حاصل کرنے کی اہل نہیں۔ کیوں کہ پارٹی نے انتخابات سے قبل مخصوص نشستوں کے لیے ترجیحی فہرست جمع نہیں کرائی تھی۔