|
“اتوار کو دھرنا ختم ہوا اور میں منگل کی صبح نو ماہ بعد قومی شناختی کارڈ دیکھا کر افغانستان میں داخل ہوا وہاں کام کیا اور واپس چمن لوٹ آیا۔”
یہ کہنا ہے ایک لغڑی (چھوٹے پیمانے کے تاجر) عبدالہادی کا جو گزشتہ 20 برسوں سے ہر روز چمن باب دوستی سے افغانستان کے علاقے ویش منڈی میں داخل ہوتے اور وہاں سے اپنے کاندھے پر سامان لاد کر لاتے رہے ہیں۔ مگر گزشتہ نو ماہ کے دوران حکومت کی جانب سے پاسپورٹ کی شرط کے باعث ان جیسے ہزاروں مزدوروں کا کام ٹھپ ہو گیا تھا۔
نو ماہ سے جاری دھرنا اتوار کو ختم ہو گیا تھا اور باب دوستی سے دونوں جانب لوگوں کو شناختی کارڈ اور ‘تذکرہ’ پر سفر کرنے کی اجازت مل گئی ہے۔
یاد رہے کہ وفاقی حکومت نے گزشتہ سال اکتوبر میں چمن کے بابِ دوستی پر شناختی کارڈ اور اجازت نامے یا ‘تذکرہ’ کے بجائے پاسپورٹ کی پابندی کا فیصلہ کیا تھا۔
پابندی کے خلاف چھوٹے پیمانے کے تاجر، مزدور اور سیاسی جماعتوں نے پاکستان افغانستان سرحد سے متصل باب دوستی کی طرف جانے والی سڑک پر دھرنا دیا جو تقریباً نو ماہ تک جاری رہا ہے۔
چمن میں فرنٹیئر کور (ایف سی) قلعے کے سامنے بین الاقومی سڑک جہاں بند کی گئی تھی وہاں سے کنٹینرز اور رکاوٹوں کو ہٹا دیا گیا ہے اور اب یہ سڑک ہر قسم کی آمدورفت کے لیے کھول دی گئی ہے۔
عبدالہادی کے بقول طویل عرصے سے کاروبار بند ہونے کی وجہ سے ان کے گھر میں فاقوں کی نوبت آ گئی تھی، بچوں کو دودھ پلانے تک کے پیسے نہیں تھے۔
چمن میں ضلعی انتظامیہ نے دھرنا ختم ہونے کی تصدیق کی ہے تاہم ان کی جانب سے سرحد پر قومی شناختی کارڈز کے ذریعے آمدورفت کے حوالے سے کوئی باقاعدہ نوٹی فکیشن سامنے نہیں آیا۔
اتوار کو دھرنا کمیٹی کے گرفتار پانچ رہنماؤں کو بھی رہا کردیا گیا ہے۔
‘مذاکرات کے بعد مفاہمت ہوئی’
دھرنا کمیٹی کے ترجمان صادق اچکزئی کہتے ہیں کہ اس مسئلے پر حکومت اور عسکری قیادت سے مذاکرات کے بعد مفاہمت ہوئی۔
ان کے بقول ہمارے دھرنے کو غلط رنگ دیا گیا ہے ہم نے یہ کبھی نہیں کیا کہ سرحد پر آمدورفت کے لیے پاسپورٹ کی شرط نہیں مانتے بلکہ ہمارا مؤقف رہا ہے کہ صرف بلوچستان کے سرحدی علاقے چمن کے شہریوں اور تاجروں کو افغانستان کے سرحدی علاقے تک جانے کے لیے استثناٰ دیا جائے۔
انہوں نے بتایا کہ منگل کو اس فیصلے کے تحت دونوں جانب سے عوام کو شناختی کارڈ اور تذکرہ پر آمدورفت کی اجازت مل گئی ہے۔
چمن سرحد باب دوستی پر دھرنا ختم ہونے کے بعد سے پیر اور منگل کو لوگوں کی بڑی تعداد سرحد پار کرنے کے لیے پہنچی جن میں قومی شناختی کارڈز اور پاسپورٹ پر سفر کرنے والے دونوں قسم کے لوگ شامل تھے۔
ادھر چمن میں سیکیورٹی حکام نے دنوں جانب سفر کرنے والے شہریوں کو کہا ہے کہ چمن میں رجسٹرڈ لغڑیوں کو افغانستان کے سرحدی علاقے ویش منڈی تک سفر کرنے کی اجازت ہے۔ جب کہ افغانستان سے رجسٹرڈ لغڑیوں کو تذکرے پر چمن میں صرف ٹیکسی اسٹینڈ تک آنے کی اجازت ہو گی۔
ثالث کا کردار ادا کرنے والے ایک اور رکن حاجی لالو ملیزئی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ حکومت نے پاسپورٹ کی شرط واپس نہیں لی تاہم کچھ عرصے کے لیے چمن کے عوام اور تاجروں کو یہ موقع ضرور فراہم کیا ہے کہ جب تک وہ اپنے قومی شناختی کارڈز اور پاسپورٹ نہیں بناتے وہ سابقہ نظام کے تحت آ جا سکتے ہیں۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے چمن میں کئی ماہ سے جاری دھرنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تاجر برادری اور مزدوروں کے تحفظات دُور کرنے پر زور دیا تھا۔
یاد رہے کہ رواں سال جون میں چمن میں دھرنا مظاہرین اور سیکیورٹی فورسز میں جھڑپوں کے باعث حالات کشیدہ ہوئے تھے اور اس دوران 30 سے زیادہ مظاہرین اور راہگیر جب کہ 15 سیکیورٹی اہلکار بھی زخمی ہوئے تھے۔
جون میں حکومت نے چمن بارڈر پر تاجروں کے احتجاج اور دھرنے کے باعث ضلع قلعہ سیف اللہ سے متصل بادینی کے مقام پر افغانستان کے ساتھ ایک اور بارڈر کراسنگ فعال کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
تاجر اتحاد کے رہنماؤں کے مطابق چمن سرحد پر روزانہ 20 ہزار سے زائد لوگ کاروبار کے سلسلے میں آتے اور جاتے ہیں ان سب کا روزگار سرحد پر کاروبار سے جڑا ہے۔