|
پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے سرحدی شہر چمن میں فرنٹیئر کور اور دھرنا مظاہرین کے درمیان جھڑپ کے نتیجے میں ایک شخص کی ہلاکت کے بعد صورتِ حال اب بھی کشیدہ ہے۔
وائس آف امریکہ ڈیوا سروس کے نمائندے نعمت سرحدی کے مطابق چمن میں گزشتہ روز کے واقعے کے خلاف اتوار کو مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی ہے۔ بازار اور تمام کاروباری مراکز بند ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ واقعے کے بعد سے کوئٹہ چمن قومی شاہراہ بند ہے جب کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہر قسم کی تجارت بھی معطل ہے۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ پر امن مظاہرین پر فورسز کی جانب سے فائرنگ کرنے والے اہل کاروں کو فی الفور گرفتار کر کے ان پر قتل کا مقدمہ دائر کیا جائے۔
عینی شاہد حمید اللہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ہفتے کی دوپہر چند لغڑی (چھوٹے پیمانے کے تاجر) پاک، افغان سرحد پر تجارت کی اجازت نہ ملنے پر احتجاج کر رہے تھے کہ اس دوران سیکیورٹی فورسز نے اُن پر آنسو گیس کی شیلنگ کی۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے کچھ ویڈیو کلپس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ چمن میں ایف سی قلعہ کے سامنے فورسز کی جانب سے مظاہرین پر لاٹھی چارج اور فائرنگ کی جارہی ہے جب کہ مظاہرین بھی ایف سی اہل کاروں پر پتھراؤ کر رہے ہیں۔
ادھر سول اسپتال چمن کی انتظامیہ نے تصدیق کی ہے کہ فائرنگ کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے ایک شخص کی لاش اسپتال لائی گئی ہے جسے ضروری کارروائی کے بعد لواحقین کے حوالے کر دیا گیا ہے۔
واقعے میں زخمی ہونے والے چھ افراد کو بھی طبی امداد کے لیے سول اسپتال منتقل کیا گیا ہے جن میں دو کی حالت تشویش ناک بتائی جاتی ہے۔
دوسری جانب چمن دھرنے کے ترجمان صادق اچکزئی نے دعویٰ کیا ہے کہ فورسز کی فائرنگ سے تین افراد ہلاک جب کہ 40 سے زائد ہلاک ہو گئے ہیں تاہم انتظامیہ نے اس دعویٰ کی تردید کی ہے۔
صادق اچکزئی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سیکیورٹی اہل کاروں نے تاجروں پر لاٹھی چارج اور فائرنگ کی ہے جس کے نتیجے میں ہمارے چار تاجر ہلاک ہوئے ہیں۔
چمن کی ضلعی انتظامیہ نے واقعے پر تاحال کسی قسم کا بیان جاری نہیں کیا ہے۔
تاہم وائس آف امریکہ کی ڈیوا سروس کے مطابق میڈیا کو بھیجے گئے ایک بیان میں چمن ایف سی کے ترجمان نے مظاہرین پر فائرنگ کی تردید کی ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ برس نگراں حکومت نے غیر قانونی تارکینِ وطن کو ملک بدر کرنے کے ساتھ ساتھ چمن سرحد پر پاسپورٹ اور ویزے کو لازمی قرار دیا تھا۔
نگراں حکومت کے اس فیصلے کے خلاف گزشتہ سال 21 اکتوبر سے پاکستان اور افغانستان کے سرحدی مقام ’باب دوستی‘ کی جانب جانے والی سڑک پر چمن کے مزدوروں، چھوٹے تاجروں اور سیاسی جماعتوں نے احتجاجی دھرنا دے رکھا ہے۔ اس دھرنے کو اب 200 روز ہونے والے ہیں۔
دھرنے کے ترجمان صادق اچکزئی کے بقول انہوں نے منگل کو پاسپورٹ آفس اور سرحدی ٹرانسپورٹ کو دوربارہ احتجاجاً بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انتظامیہ نے ان کے پرامن احتجاج کو سبوتاژ کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ انتظامیہ چمن میں 197 روز سے جاری پر امن دھرنے کو تشدد کے ذریعے ختم کرنا چاہتی ہے۔
صادق اچکزئی نے دعویٰ کیا ہے کہ فورسز نے نہ صرف تاجروں پر فائرنگ کی بلکہ ان کے اسٹیج کو توڑا، خیموں کو آگ لگا دی اور اسپیکر اپنے ساتھ لے گئے۔
واضح رہے کہ رواں سال مارچ میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے چمن میں جاری دھرنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تاجر برادری اورمزدروں کے تحفظات دور کرنے کی سفارش کی تھی۔
اس سے قبل بلوچستان کی حکومت نے چمن سرحد کی بندش کے سبب متاثر ہونے والے تاجروں کے لیے گزشتہ برس دسمبر میں خصوصی پیکج کا اعلان کیا تھا جس کے تحت چھوٹے تاجروں کی مالی مدد شروع کی گئی تھی۔ البتہ تاجر اس اقدام سے مطمئن نہیں تھے۔
سرحد پر کاروبار سے وابستہ مزدوروں کی تعداد 20 سے 25 ہزار بتائی جاتی ہے جن میں اکثریت کا تعلق سرحدی اضلاع چمن اور قلعہ عبداللہ سے ہے۔