Tuesday, December 31, 2024
ہومPakistanچھبیسویں آئینی ترمیم؛ کیا حکومت آئینی بینچز کی تشکیل پر اثرانداز ہو...

چھبیسویں آئینی ترمیم؛ کیا حکومت آئینی بینچز کی تشکیل پر اثرانداز ہو سکے گی؟


  • تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آئینی بینچز کے قیام کے لیے جوڈیشل کمیشن میں بظاہر حکومت کی اکثریت نظر آ رہی ہے۔
  • سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں آئینی بینچز قائم کرنے کا اختیار جوڈیشل کمیشن کو دیا گیا ہے۔
  • آئینی و قانونی امور کے ماہر سابق ایڈووکیٹ جنرل سندھ بیرسٹر ضمیر گھمرو کہتے ہیں کہ آئینی بینچز کے قیام کا فیصلہ جوڈیشل کمیشن کو کرنا ہے۔
  • حکومت کچھ ججز کو آئینی بینچز میں شامل کرنے کا رسک نہیں لے گی: تجزیہ کار مطیع اللہ جان

اسلام آباد — چھبیسویں آئینی ترمیم کے تحت آئینی بینچز کے قیام کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔

اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے لیے حکومت اور اپوزیشن سے دو، دو نام طلب کر لیے ہیں۔

چیف جسٹس کی تعنیاتی کے لیے بنائی گئی 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس کا بائیکاٹ کرنے والی حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) نے جوڈیشل کمیشن کا حصہ بننے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آئینی بینچز کے قیام کے لیے جوڈیشل کمیشن میں بظاہر حکومت کی اکثریت نظر آ رہی ہے۔ تاہم دیکھنا ہوگا کہ ججز کو ساتھ لے کر آگے بڑھا جاتا ہے یا کثرتِ رائے سے فیصلے کیے جاتے ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں چیف جسٹس پاکستان کا کردار اہم ہو گا۔ اگر چیف جسٹس کہتے ہیں کہ آئینی بینچز میں سینئر ترین ججز تعینات ہونے چاہئیں تو کیا چیف جسٹس کی رائے کو تسلیم نہیں کیا جائے گا؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ آئینی بینچز میں ججز ایسے ہونے چاہئیں جو اعتماد اور شفافیت کو یقینی بنائیں اگر ایسا نہ ہوا تو ترمیم کے مخالفین معاملے کو ہوا دیں گے اور نظام بری طرح متاثر ہو گا۔

جوڈیشل کمیشن کی تشکیل

سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں آئینی بینچز قائم کرنے کا اختیار جوڈیشل کمیشن کو دیا گیا ہے۔

اس وقت تک جوڈیشل کمیشن قائم نہیں ہوا۔ وزارتِ قانون کے ذرائع کے مطابق آئین کے تحت جوڈیشل کمیشن کے قیام کے لیے نام مانگے جا رہے ہیں۔ آئینی ترمیم کے ذریعے اعلی عدلیہ میں ججز کی تعنیاتی اور آئینی بینچز کے قیام کے لیے 13 رکنی جوڈیشل کمیشن بنے گا۔

آرٹیکل 175 اے میں کی گئی 26 ویں آئینی ترمیم کے مطابق جوڈیشل کمیشن کے چیئرمین چیف جسٹس آف پاکستان ہوں گے۔ سپریم کورٹ کے تین سینئر ترین ججز کمیشن کے رکن ہوں گے۔

وفاقی وزیر قانون، اٹارنی جنرل، پاکستان بار کونسل کی جانب سے نامزد ایک رکن، سینیٹ اور قومی اسمبلی سے دو، دو ارکان بھی کمیشن کے رکن ہوں گے۔

ایک خاتون یا اقلیتی رُکن بھی کمیشن کا رُکن ہو گا جب کہ ایک آئینی عدالت کا سینئر ترین جج بھی جوڈیشل کمیشن کا رُکن ہو گا۔

آئینی و قانونی امور کے ماہر سابق ایڈووکیٹ جنرل سندھ بیرسٹر ضمیر گھمرو کہتے ہیں کہ آئینی بینچز کے قیام کا فیصلہ جوڈیشل کمیشن کو کرنا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ جوڈیشل کمیشن بنے گا تو اس کا اجلاس بلایا جائے گا جس میں یہ طے ہو گا کہ ایک آئینی بینچ قائم کرنا ہے یا ایک سے زیادہ بینچز قائم ہوں گے۔

بیرسٹر ضمیر گھمرو کا کہنا تھا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے آئین میں لکھ دیا گیا ہے کہ کم سے کم پانچ رُکنی آئینی بینچ ہو گا۔ تاہم آئینی بینچ میں کتنے اور کون سے ججز لگائے جائیں یہ فیصلہ جوڈیشل کمیشن کو کرنا ہے۔

ضمیر گھمرو کے مطابق آئینی بینچز کو دیے گئے اختیارات کے کیسز کیسے درج ہوں گے اس کا طریقۂ کار موجود ہے۔ درج کیسز کی آئینی بینچز کو منتقلی کا آئین میں لکھ دیا گیا ہے۔ تاہم آئینی بینچز کو رولز بنانے کا بھی آئین میں ہی اختیار دیا گیا ہے۔ 26 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے آئینی معاملات کو الگ کر دیا گیا ہے۔ اس سے لوگوں کو سہولت ہو گی اور کیسز جلد نمٹائے جا سکیں گے۔

‘آئینی بینچز میں مرضی کے جج لانا آسان نہیں ہو گا’

سینئر تجزیہ کار مطیع اللہ جان کا کہنا ہے کہ آئینی بینچز کے قیام کا کوئی تو مقصد اور معیار ہو گا۔ اگر آئینی معاملات میں مہارت رکھنے والے دونوں سینئر ججز آئینی بینچز میں شامل نہیں ہوں گے تو پھر اس پر سوال اُٹھیں گے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے مطیع اللہ جان کا کہنا تھا کہ حکومت کچھ ججز کو آئینی بینچز میں شامل کرنے کا رسک نہیں لے گی۔ لیکن اگر مرضی کے ججز لانے کی کوشش کی گئی تو اس سے مسائل جنم لیں گے۔

خیال رہے کہ وزیرِ اعظم کے سیاسی اُمور کے مشیر رانا ثناء اللہ نے جیو نیوز کے پروگرام ‘نیا پاکستان’ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کو آئینی بینچز میں بیٹھنے سے معذرت کر لینی چاہیے۔

اُن کا کہنا تھا کہ آئینی بینچز کی تشکیل کے لیے اجلاس کی صدارت چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کریں گے۔ انہیں بھی آئینی بینچ کا سربراہ نہیں بننا چاہیے مگر میری رائے اُن کے لیے لازمی نہیں ہے۔

مطیع اللہ جان کا کہنا تھا کہ تاحال یہ بھی واضح نہیں ہے کہ جوڈیشل کمیشن کا اجلاس کب بلایا جائے گا۔

اُن کے بقول سینئر ترین جج منصور علی شاہ ملک میں موجود نہیں ہیں۔ وہ یکم نومبر کو واپس آئیں گے۔ دیکھنا ہو گا کہ عددی اکثریت سے فیصلے کیے جاتے ہیں یا پھر سپریم کورٹ کے ججز کو ساتھ لے کر چلا جاتا ہے۔

مطیع اللہ جان کے مطابق جس طرح کے حالات ہیں اس میں کجھ بھی ہو سکتا ہے اگر چیف جسٹس کہتے ہیں کہ آئینی بینچز میں سینئر ججز لگائے جائیں تو دیکھنا ہو گا کہ حکومت اس پر کیا ردِعمل دے گی۔

ماہرین کے مطابق آرٹیکل 191 اے کی کلاز دو کے مطابق جوڈیشل کمیشن کی جانب سے سپریم کورٹ میں آئینی بینچز کے لیے نامزد ججوں میں سے سینئر ترین جج آئینی بینچز کا سینئر ترین جج ہو گا۔ آئینی بینچز کا سینئر ترین جج آئینی بینچز کا سربراہ تصور ہو گا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ سمیت چاروں صوبوں کے ہائی کورٹس میں آئینی بینچز قائم کرنے کا بھی اختیار جوڈیشل کمیشن کو دیا گیا ہے۔ تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ کے آئینی بینچز کے لیے پارلیمنٹ سے قرارداد منظور کروانا ہو گی۔

صوبائی ہائی کورٹس میں آئینی بینچز کے لیے صوبائی اسمبلیوں کو قراردادیں منظور کرانا لازمی ہو گا۔

آئینی بینچز کے اختیارات

آئین کے آرٹیکل 191 کے بعد 26 آئینی ترمیم کے تحت نیا آرٹیکل 191 اے شامل کیا گیا ہے۔ آرٹیکل 191 اے کے مطابق سپریم کورٹ کے اہم اختیارات آئینی بینچز کو منتقل کیے گئے ہیں۔

آرٹیکل 184 کے تحت از خود نوٹس کا اختیار سپریم کورٹ کے بجائے آئینی بینچز کے پاس ہو گا۔

آرٹیکل 185 کے تحت آئین کی تشریح سے متعلق کیسز آئینی بینچز کے دائرہ اختیار میں آئیں گے۔ آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ کے ایڈوائزری اختیارات بھی آئینی بینچز کے پاس ہوں گے۔



Source

RELATED ARTICLES

اپنی رائے کا اظہار کریں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

مقبول خبریں