|
مسلم لیگ (ن) کے نو منتخب صدر میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ان کی جماعت کے کارکنوں نے اُنہیں پارٹی صدارت سے ہٹانے کا سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کا فیصلہ ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا ہے۔
منگل کو مسلم لیگ (ن) کے جنرل کونسل اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ “مجھے ثاقب نثار نے صرف اس بات پر نااہل قرار دیا اور پارٹی قیادت سے ہٹایا کہ میں نے اپنے بیٹے سے تنخواہ نہیں لی۔ بلائیں ثاقب نثار کو اور پوچھیں کہ کارکنوں کا فیصلہ کیا تھا۔”
واضح رہے کہ جولائی 2017 میں اُس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے اقامہ کیس میں نواز شریف کو نااہل قرار دیا تھا۔ بعدازاں عدالت نے نواز شریف کو پارٹی صدارت سے بھی ہٹانے کا حکم دیا تھا جس کے بعد پارٹی صدارت شہباز شریف کے سپرد کر دی گئی تھی۔
البتہ منگل کو مسلم لیگ (ن) کی جنرل کونسل کے اجلاس میں نواز شریف کو ایک بار پھر مسلم لیگ (ن) کا صدر منتخب کر لیا گیا ہے۔ نواز شریف کے مقابلے میں کسی لیگی رہنما نے پارٹی صدارت کے لیے کاغذات جمع نہیں کرائے۔
اپنے خطاب میں نواز شریف نے ایک بار پھر ‘لندن پلان’ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے طاہر القادری، چوہدری پرویز الہٰی اور اُس وقت کے آئی ایس آئی چیف جنرل ظہیر الاسلام کے ساتھ مل کر اُن کی حکومت گرانے کی سازش کی اور لندن میں ان تمام افراد نے ملاقاتیں کیں جس کے بعد دھرنوں کا منصوبہ بنا۔
نواز شریف کا کہنا تھا کہ عمران خان ‘ان’ کے کندھوں پر چڑھ کر اقتدار میں آئے۔ جنرل ظہیر الاسلام نے بھی ایک جگہ کہا کہ تیسری قوت ڈیلیور کر سکتی ہے۔ لہٰذا جس امپائر کی انگلی کی عمران خان بار بار بات کرتے تھے یہ وہی تھے جو انہیں اقتدار میں لائے۔
واضح رہے کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور تحریکِ انصاف کے رہنما نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کے اس نوعیت کے الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔
‘ہم نو مئی والے نہیں 28 مئی والے ہیں’
سابق وزیرِ اعظم نے ایک بار پھر 28 مئی 1998 کو کیے گئے ایٹمی دھماکوں کا کریڈٹ لیتے ہوئے کہا کہ “ہم 28 مئی والے ہیں نو مئی والے نہیں۔”
اُن کا کہنا تھا کہ امریکی دباؤ اور اربوں ڈالرز کی پیش کش کے باوجود پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے جس کے بعد بھارتی وزیرِ اعظم اٹل بہاری واجپائی پاکستان آئے۔
نواز شریف نے ایک بار پھر اپنے اُوپر قائم کیے گئے مقدمات کو جھوٹا قرار دیتے ہوئے کہا کہ جو مقدمات عمران خان کے خلاف بنائے گئے ہیں وہ بالکل حقیقت پر مبنی ہیں۔ لیکن چھ سال کے دوران جس طرح مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں پر مقدمات قائم کیے گئے وہ ایک سیاسی انتقام تھا۔
سابق وزیرِ اعظم نے کہا کہ کئی لوگوں نے ان کے اور شہباز شریف کے درمیان دراڑیں ڈالنے کی کوشش کی۔ لیکن شہباز شریف کسی کے سامنے نہیں جھکے۔
اُن کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کو ان سے بے وفائی کے عوض وزارتِ عظمیٰ کی پیش کش ہوئی، لیکن شہباز شریف نے اُن سے بے وفائی نہیں کی۔