|
حالیہ دنوں میں کالعدم قرار دی گئی تنظیم پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کو انتظامیہ نے خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور سے ملحقہ قبائلی ضلع خیبر میں تین روزہ جرگہ کرنے کی اجازت دے دی ہے۔
ضلع خیبر کے تحصیل جمرود کے علاقے غنڈی ریگی للمہ میں جمعے کو پی ٹی ایم کا جرگہ شروع ہوگا۔
بدھ کو جرگے کے انتظامات کے لیے جمع ہونے والے پی ٹی ایم کے کارکنوں پر مبینہ طور پر سیکیورٹی اہلکاروں نے فائرنگ کی تھی۔ فائرنگ کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال پر جمعرات کو پشاور میں وزیرِ اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی صدارت میں طویل مشاورتی اجلاس ہوا۔
اس اجلاس کے بعد جمرود میں پہلے اسپیکر صوبائی اسمبلی سلیم سواتی اور کالعدم پی ٹی ایم کے وفد کے مذاکرات ہوئے۔ بعدازاں جمعرات کی شب وزیرِ اعلیٰ علی امین گنڈا پور اور پی ٹی ایم کے رہنما منظور پشتین کے درمیان ملاقات ہوئی۔ ان ملاقاتوں میں پی ٹی ایم کے پُر امن جرگے کے انعقاد پر اتفاق کیا گیا۔
اس اتفاق کے بعد انتظامیہ نے کالعدم پی ٹی ایم کو تین روزہ جرگہ کرنے کی اجازت دی۔
مشاورت اور گفت و شنید کے بعد وزیرِ اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے منظور پشتین کے موجودگی میں ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں کہا کہ پختون روایات کے مطابق جرگے کا انعقاد ہوگا۔ اس جرگے میں جو بھی فیصلے اور تجاویز سامنے آئیں گی وہ وزیرِ اعلیٰ کی حیثیت سے اس پر عمل در آمد کریں گے۔
منظور پشتین نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ جرگے کی روایات کے مطابق شرکا مل بیٹھ کر مسائل اور مشکلات پر بحث کے بعد فیصلے کریں گے اور تجاویز مرتب کی جائیں گی۔
منظور پشتین کے بقول یہ پشتونوں کا مشترکہ جرگہ ہو گا۔ کوئی اس کی ملکیت کا دعوٰی نہیں کر سکتا۔
وزیرِ اعلیٰ علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ وہ اس جرگے کی میزبانی کریں گے۔
جرگے کے مقام پر بدھ کو سیکیورٹی اہلکاروں کی مبینہ فائرنگ اور چار افراد کی ہلاکت کے واقعے کو علی امین گنڈاپور نے وفاقی حکومت کی خیبر پختونخوا میں مداخلت قرار دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں جرگے کے فیصلے اور تجاویز پر عمل در آمد ہوگا۔
وفاقی حکومت کے پی ٹی ایم پر عائد کی جانے والی پابندی کو وزیرِ اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے مضحکہ خیر قرار دیا جب کہ پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین کا کہنا تھا کہ ایک پر امن سیاسی جماعت کو دہشت گرد قرار دینا زیادتی ہے۔
ریاستی اداروں کا نام لیے بغیر منظور پشتین نے کہا کہ دہشت گرد تو وہ ہیں جنہوں نے دہشت گردوں کی تربیت اور سرپرستی کرتے ہوئے ان کو ٹھکانے فراہم کیے۔
پی ٹی ایم پر پابندی کے حوالے سے منظور پشتین کا مزید کہنا تھا کہ یہ بھی کہا گیا تھا کہ جو بھی منظور پشتین یا پی ٹی ایم سے ملے گا تو ان کی شناختی دستاویزات کو بلاک کیا جائے گا اور ان افراد کو شناختی کارڈ نہیں ملے گا تو چلیں یہ عمل وزیرِ اعلیٰ سے شروع کریں۔
اس دوران وزیرِ اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے کہا کہ ان کا شناختی کارڈ اور بٹوہ تو پہلے ہی غائب ہے۔
واضح رہے کہ دو دن قبل وفاقی وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے ایک بیان میں کہا تھا کہ جو کالعدم قرار دی گئی پی ٹی ایم کی سہولت کاری کریں گے ان کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا ہو گا۔ ان افراد کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک ہوں گے۔
پی ٹی ایم کو جرگے کی اجازت دینے سے قبل مذاکرات اور مشاورت پشاور میں حیات آباد سے ملحقہ جمرود میں تحریکِ انصاف کے رہنما امیر محمد خان کے حجرے میں ہوا۔
اس مشاورتی عمل میں پی ٹی آئی کے اہم رہنماؤں کے علاوہ صوبائی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف ڈاکٹر عباد، عوامی نیشنل پارٹی کے میاں افتخار حسین، قومی وطن پارٹی کے سکندر حیات خان شیرپاؤ اور دیگر جماعتوں کے رہنما بھی موجود تھے۔
میاں افتخار حسین نے بھی ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں کہا کہ شرکا جرگہ کے پر امن انعقاد پر متفق ہیں۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ یہ جرگہ قیامِ امن کا پیش خیمہ ثابت ہو گا۔
قبل ازیں جمعرات کو صورتِ حال کے جائزے کے لیے وزیرِ اعلیٰ کی میزبانی میں جمعرات کو مشاورتی اجلاس میں وفاقی وزیرِ داخلہ محسن نقوی، خیبر پختونخوا کے گورنر فیصل کریم کنڈی، وفاقی وزیر امیر مقام کے علاوہ مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنما شریک ہوئے تھے۔
پی ٹی ایم نے 11 اکتوبر کو ضلع خیبر کے علاقے جمرود میں صوبے میں بے امنی کے خلاف ‘پشتون قومی عدالت’ کے نام سے ایک جرگہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن بدھ کو پولیس نے تحصیل جمرود کے علاقے غنڈی میں قائم اس جرگے کے مقام پر دھاوا بول دیا تھا۔
پی ٹی ایم نے الزام عائد کیا تھا کہ پولیس نے کارکنوں پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں اس کارکن ہلاک ہوئے۔