|
کراچی — پاکستان کے شہر کراچی میں اتوار کی شب بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کی کارروائی میں دو چینی انجینئرز کی ہلاکت کے بعد تنظیم کی صلاحیت کا معاملہ بھی موضوعِ بحث ہے۔
بی ایل اے کے مطابق یہ حملہ اس کے نو تشکیل شدہ انٹیلی جینس ونگ زراب نے کیا۔
حکام کا کہنا ہے کہ یہ حملہ ایک منظم کارروائی تھی جس میں خطیر سرمایہ صرف کیا گیا۔ لیکن ابھی اس بارے میں کوئی بات وثوق سے نہیں کی جا سکتی کہ یہ کارروائی بی ایل اے کے انٹیلی جینس ونگ نے اپنے بل بوتے پر کی ہے یا نہیں۔
واقعے کی درج ایف آئی آر میں پہلی بار حکام نے تسلیم کیا ہے کہ یہ خودکش حملہ تھا جو کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے کیا۔
پولیس کے مطابق اس حملے میں ماسٹر مائنڈ کمانڈر بشیر احمد بلوچ عرف بشیر زیب اور عبدالرحمان عرف رحمان گل اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ شامل ہیں۔
پولیس کا مزید کہنا تھا کہ اس حملے میں خودکش بمبار کی ذہن سازی کی گئی جب کہ گاڑی میں دھماکہ خیز مواد غیر ملکی دُشمن خفیہ ایجنسی کی مدد سے نصب کیا گیا۔ اس کا مقصد پاکستان اور چین کے تعلقات خراب کرنا تھا۔
حملہ کرنے والا خود کش بمبار کون تھا؟
اس سے قبل پولیس حکام یہ بتانے سے گریز کررہے تھے کہ یہ حملہ دہشت گردی کی واردات بھی ہے یا نہیں۔ اگرچہ پولیس نے ایف آئی آر میں مبینہ خودکش حملہ آور کا نام ظاہر نہیں کیا۔ تاہم اعلیٰ پولیس حکام کے ساتھ ہونے والی گفتگو سے معلوم ہوا کہ حملہ آور 28 سالہ شاہ فہد ہے اور وہ نوشکی کا رہائشی ہے۔
کوئٹہ سے وائس آف امریکہ کے نمائندے مرتضیٰ زہری کے مطابق کالعدم بلوچ علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) سے تعلق رکھنے والے شاہ فہد کے قریبی رشتے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کا تعلق نوشکی کے بلوچ قبیلے “بادینی” سے ہے۔
وہ نوشکی کے مرکزی علاقے سردار بادینی سے تعلق رکھتے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ شاہ فہد کا پڑھا لکھا گھرانہ ہے اور انہوں نے کبھی یہ محسوس ہونے نہیں دیا کہ شاہ فہد کا تعلق کسی عسکریت پسند تنظیم سے ہے۔
اُن کے بقول شاہ فہد کے والد کو منگل کی رات اس واقعے کی اطلاع دی گئی جو غم سے نڈھال ہیں۔
شاہ فہد کے محلے سے ایک اور شخص نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ کافی خاموش نوجوان تھے اپنے کام سے کام رکھتے تھے۔
حملے کے بعد شاہ فہد کے گھر پر رشتہ داروں اور عزیز و اقارب کا رش ہے اور لوگ ان کے لواحقین سے تعزیت کے لیے آ رہے ہیں۔
کالعدم تنظیم بی ایل اے کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ شاہ فہد عرف آفتاب کا تعلق بی ایل اے کے مجید بریگیڈ سے تھا وہ 2019 سے بی ایل اے سے وابستہ تھا۔
لسبیلہ یونیورسٹی میں بعض طلبہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ وہ شاہ فہد کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے کیوں کہ وہ کافی سینئر تھے اور 2017 میں بی بی اے میں داخلہ لینے کے بعد 2021 میں یونی ورسٹی سے فارغ ہوئے تھے۔
طلبہ کے مطابق ہم نے یہ سنا ہے کہ شاہ فہد ایک ہونہار طالب علم تھے۔
کالعدم تنظیم بی ایل اے نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ شاہ فہد کو تین سال تربیت کے بعد ایک سال قبل یہ مشن سونپا گیا ہے۔
‘خودکش حملے پر بہت رقم خرچ کی گئی’
کراچی میں تعینات ایک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ کہ یہ خود کش حملہ بڑی مالی امداد کے ساتھ منظم انداز میں کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا اس کارروائی میں کم سے کم بھی ایک کروڑ پاکستانی روپوں سے زائد کے اخراجات ہوئے جس میں گاڑی کی مالیت اور دھماکہ خیز مواد کی خریداری اور دیگر اخراجات شامل ہیں۔
افسر کا کہنا تھا کہ اس خودکش دھماکے میں اندرونی ہاتھ کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا جس نے چینی شہریوں سے متعلق معلومات فراہم کی ہوں گی۔
سول ایوی ایشن ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اتوار کی رات مختلف فلائٹس سے کم از کم 44 چینی شہری کراچی پہپنچے تھے جو چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) اور نان سی پیک دونوں اقسام کے منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔
کیا یہ حملہ بی ایل اے کے نئے انٹیلی جینس ونگ نے کیا؟
ادھر بی ایل اے کی جانب سے میڈیا کے نمائندوں کو بھیجی گئی ایک پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ یہ حملہ بی ایل اے کے انٹیلی جینس ونگ ‘زراب’ نے کیا۔
اس کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ زراب بی ایل اے کا منظم و مربوط انٹیلی جینس ونگ ہے جو پیشہ وارانہ صلاحیتوں کے مالک ریسرچرز، آئی ٹی ایکسپرٹس، ڈیٹا انالسٹ اور تفتیش کاروں پر مشتمل ہے۔
اگرچہ حکام فی الحال اس بات کی تصدیق نہیں کر رہے کہ بی ایل اے کا انٹیلی جینس ونگ مضبوط ہو چکا ہے۔
لیکن بلوچستان میں سیکیورٹی امور کے ماہر اور مکران یونی ورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر میر سادات بلوچ کا کہنا ہے کہ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ بی ایل اے کا انٹیلی جینس ونگ اس قدر مضبوط اور منظم ہو چکا ہے کہ وہ اس طرح کی بڑی کارروائیاں کرنے کے قابل ہے۔
لیکن ان کا کہنا تھا اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ رواں برس 26 اگست کو بلوچستان کے آٹھ اضلاع میں کی جانے والی کارروائیاں کافی منظم اور مربوط معلوم ہوتی تھیں اور ان کی ذمے داری بھی بی ایل اے نے ہی قبول کی تھی۔
ڈاکٹر میر سادات بلوچ کہتے ہیں کہ بی ایل اے کی کوشش ہے وہ خود کو ایک مکمل آرمی کے طور پر متعارف کرائے اور ان کا ایک ملیشیا یا عسکریت پسند گروپ کا تاثر ختم ہو۔
ڈاکٹر بلوچ کا مزید کہنا تھا کہ پہلے تین چار مختلف گروپس کو اس قسم کی کارروائیوں کے لیے فنڈنگ ملا کرتی تھی لیکن اب صرف بی ایل اے ہی کافی فعال نظر آتی ہے اور ان کارروائیوں سے لگتا ہے کہ ان کو کافی بڑے پیمانے پر فنڈنگ مل رہی ہے۔
چین کا اپنے شہریوں کو محتاط رہنے کا مشورہ
ادھر اطلاعات کے مطابق اسلام آباد میں چینی سفارت خانے نے چینی شہریوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ملک کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان اور شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخوا کا سفر کرنے سے گریز کریں، جہاں چینی اہلکاروں اور منصوبوں کو نشانہ بنانے والے حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔