|
اسلام آباد — پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع کرم میں مسافر بسوں پر فائرنگ کے دو واقعات میں کم از کم 38 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے ہیں۔
وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔
ڈپٹی کمشنر کرم جاوید اللہ محسود نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ”لوئر کرم کے دو علاقوں مندوری اور ڈاڈ کمر میں مسافر بسوں کے کانوائے پر دہشت گردوں نے فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 38 افراد ہلاک اور 11 زخمی ہو گئے ہیں۔”
ان کے بقول مندوری میں کانوائے پشاور سے پاڑہ چنار جا رہا تھا اور ڈاڈ کمر میں کانوائے پاڑہ چنار سے پشاور آ رہا تھا۔ ہلاک ہونے والوں میں پولیس اہلکار، خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
جاوید اللہ محسود کا کہنا تھا کہ دونوں قافلوں میں تقریباً 40 کے قریب گاڑیاں شامل تھیں، کانوائے پر فائرنگ کے بعد دہشت گرد فرار ہو گئے ہیں جن کی گرفتاری کے لیے سرچ آپریشن جاری ہے۔
تاحال کسی گروہ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
یاد رہے کہ ضلع کرم میں یہ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب دو روز قبل صوبہ خیبر پختونخوا کے دو مختلف علاقوں بنوں اور تیراہ میں سیکیورٹی فورسز پر حملوں کے نتیجے میں 20 سیکیورٹی اہلکار ہلاک جب کہ متعدد زخمی ہوئے تھے۔
بنوں میں سیکیورٹی فورسز کے چیک پوائنٹ پر ہونے والے خود کش حملے کی ذمہ داری حافظ گل بہادر گروپ نے قبول کی تھی۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی مذمت
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے ذمے داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا کا مطالبہ کیا ہے۔
تنظیم کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ خیبرپختونخوا میں بے امنی کے بڑھتے ہوئے واقعات سے وفاقی اور صوبائی حکومتی کی کوتاہی ظاہر ہوتی ہے۔ لہذٰا دونوں حکومتوں کو چاہیے کہ عام کے جان و مال کے تحفظ کے لیے اقدامات کرے۔
قبائلی ضلع کرم میں طویل عرصہ سے فرقہ وارانہ لڑائی کے باعث سینکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
اگست میں فرقہ وارانہ لڑائی کے باعث اپر اور لوئر کرم کا درمیانی راستہ ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا تھا، پولیس کے مطابق مقامی جرگہ کی کوششوں سے گزشتہ ہفتے راستہ کھولا گیا تھا جس کے بعد مسافروں کو کانوائے کی شکل میں لے جایا جاتا تھا۔