Friday, December 27, 2024
ہومPakistanگلگت بلتستان: سیاحتی مقامات، گیسٹ ہاؤسز لیز پر دینے کے خلاف احتجاج،...

گلگت بلتستان: سیاحتی مقامات، گیسٹ ہاؤسز لیز پر دینے کے خلاف احتجاج، معاملہ ہے کیا؟



  • حکومت اور گرین ٹورزم لمیٹڈ کے درمیان لیز کا معاہدہ ہوا ہے۔
  • رپورٹس کے مطابق معاہدے کے تحت 44 سیاحتی مقامات، گیسٹ ہاؤسز کو 30 سال کے لیے لیز پر دیا جائے گا۔
  • مقامی لوگ اس اقدام کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔
  • حکومت نے عوامی ایکشن کمیٹی سے مذاکرات کے لیے ایک کمیٹی بھی قائم کردی ہے۔

اسلام آباد — گلگت بلتستان کی سیاسی، سماجی، قوم پرست اور مذہبی تنظیموں پر مشتمل ‘عوامی ایکشن کمیٹی’ نے حکومت کی جانب سے 44 سیاحتی مقامات، گیسٹ ہائوسز اور جنگلات کی زمینوں کو نجی کمپنی ‘گرین ٹورزم لمیٹڈ’ کو 30 سال کے طویل عرصے کے لیے لیز پر دینے کے خلاف احتجاجی تحریک کا اعلان کیا ہے۔

اس اقدام کے خلاف گزشتہ ہفتے اسکردو میں بچوں اور نوجوانوں پر مشتمل ہزاروں افراد نے ریلی نکالی۔ ریلی میں “نامنظور گرین ٹورزم نا منظور” کے نعرے لگائے گئے۔

عوامی ایکشن کمیٹی نے حکومتی فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے اس منصوبے کو گلگت بلتستان کے وسائل پر قبضہ قرار دیا ہے۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ سیاحت کی صنعت میں حصہ لینے سے محروم ہو جائیں گے جو خطے کے لیے ایک اقتصادی لائف لائن ہے۔

دوسری جانب حکومت مقامی لوگوں کو یہ سمجھانے اور قائل کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ اس اقدام سے سیاحت کی صنعت میں مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو سہولت ملے گی۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق جن مقامات کو لیز پر دینے کا معاہدہ کیا گیا ہے۔ ان میں پاکستان ٹورزم ڈویلپمنٹ کارپوریشن کے سات موٹل، کمیونی کیشن اینڈ ورکس ڈیپارٹمنٹ کے 20 گیسٹ ہاؤسز اور محکمۂ جنگلات کی 17 سائٹس شامل ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے چیئرمین عوامی ایکشن کمیٹی بلتستان نجف علی نے بتایا کہ گلگت بلتستان میں روزگار کے مواقع پہلے ہی بہت کم ہیں۔ ایسے میں سیاحت ایک واحد شعبہ بچتا ہے۔ لوگوں نے اپنی چھوٹی چھوٹی زمینیں فروخت کر کے اپنے لیے گاڑیاں خریدی ہیں تاکہ سیاحوں کو گلگت بلتستان کے دلفریب مناظر دیکھا کر اپنی روزی روٹی کا بندوبست کر سکیں۔

نجف علی کے بقول حال ہی میں گرین ٹورزم کے نام سے ایک ٹورزم کمپنی رجسٹرڈ ہوئی ہے جنہیں پہلے مرحلے میں گلگت بلتستان کی پاکستان ٹورزم ڈیولپمنٹ کارپوریشن (پی ٹی ڈی سی) کے تمام موٹلز، سرکاری ریسٹ ہاؤسز، پارکس وغیرہ کو انتہائی کم نرخ پر لیز آؤٹ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسکردو میں بلترو ریسٹ ہاؤس جو کہ 13 کمروں، کچن اور ایک وسیع ہال پر مشتمل ہے کو صرف 13 ہزار روپے ماہانہ پر لیز آؤٹ کیا ہے۔ اس کے علاوہ پورے اسکردو میں ایک ہی پارک تھا جہاں مقامی خواتین اور بچے تفریح کے لیے جاتے تھے، اسے محض 20 سے 25 روپے فی کنال پر لیز آؤٹ کیا گیا۔ ان کے بقول اس پارک کو تعمیرات میں تبدیل کرنا چاہتے تھے جسے مقامی برادری نے یکسر مسترد کر دیا ہے۔

عوامی ایکشن کمیٹی کے مطابق وہ سرکاری پراپرٹی کی لیزنگ کے خلاف نہیں۔ لیکن سب کچھ اوپن ٹینڈر کے ذریعے ہونا چاہیے اور زیادہ بولی لگانے والے کو پراپرٹی دی جانی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر سب کچھ ٹینڈر کے بغیر ہی کرنا ہے تو پھر گلگت بلتستان کے بے روزگار نوجوانوں کے حوالے کیا جائے جس کے ذریعے انہیں روزگار کے مواقع فراہم ہوں اور علاقے کی تہذیب و ثقافت پر بھی کوئی آنچ نہ آئے۔

نجف علی کے مطابق چونکہ گلگت بلتستان ایک متنازع علاقہ ہے تو وہاں کی زمینوں کی بندر بانٹ کے فیصلے وہاں کے باشندوں کو ہی کرنے کا حق ہے نہ کہ باہر سے لائے گئے سیکریٹری گلگت بلتستان کے عوام کی قسمت کے فیصلے کریں۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس اسکیم کا مقصد گلگت بلتستان کے وسائل کی بندربانٹ کے علاوہ کچھ بھی نہیں اور یہاں کے عوام کسی بھی صورت ایسا نہیں کرنے دیں گے۔

نجب علی نے واضح کیا کہ گزشتہ ہفتے کے احتجاج کے بعد صوبائی حکومت نے مذاکرات کے لیے 13 رکنی کمیٹی ترتیب دی ہے لیکن اگر بات چیت کامیاب نہیں ہوتی ہے اور مطالبات نہیں مانے جاتے تو پورے گلگت بلتستان کو جام کر دیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کی تنظیم داریل سے لے کر سیاچن کے آخری بارڈر تک متحد ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں سستی بجلی کی فراہمی اور لوڈ شیڈنگ کے خلاف ہڑتال کے دوران مشتعل مظاہرین اور پولیس آمنے سامنے آگئے تھے جس کے دوران پتھراؤ کے جواب میں پولیس نے آنسو گیس کی شیلنگ کر دی تھی۔

نجف علی کے مطابق کشمیر کا احتجاج تو چھوٹے موٹے مطالبات جیسے بجلی اور گندم کی قیمتوں میں کمی کے لیے کیا گیا تھا۔ لیکن گلگت بلتستان میں تو بات قدرتی وسائل کو بچانے کی ہے اور آنے والی نسلوں کی قسمت کو داؤ پر نہیں لگایا جا سکتا ہے۔

دوسری جانب گرین ٹورزم انتظامیہ کے ڈائریکٹر غضنفر خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ عمل حکومت گلگت بلتستان اور گرین ٹورزم کے درمیان ایک معاہدے کی صورت میں نافذ العمل کیا جا رہا ہے۔

ان کے بقول اسے باقاعدہ اسمبلی میں بحث ہونے بلکہ اسملی سے اضافی تجاویز آنے کے بعد آگے بڑھایا جا رہا ہے۔

گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے صوبائی اسمبلی کے رکن نواز خان ناجی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ گرین ٹورزم کے حوالے سے کوئی بھی بل یا قرارداد صوبائی اسمبلی سے پاس نہیں ہوئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسمبلی میں کابینہ کے فیصلے پر ضرور بحث ہوئی کہ کس طرح گلگت بلتستان کے ریسٹ ہاؤسز، جنگلات، تفریحی مقامات کو گرین ٹورزم کے حوالے کیا جا رہا ہے جس پر انہوں نے ارکان اسمبلی کو کوئی تسلی بخش جوابات نہیں دیے۔

اسکردو سے تعلق رکھنے والے صحافی رجب علی قمر کا کہنا ہے کہ حکومتی سطح پر کمیٹی کی تشکیل کے بعد اگرچہ بڑے پیمانے پر احتجاج تو رُک گیا ہے۔ تاہم عوامی سطح پر آگہی پھیلانے کے سلسلے میں مختلف سیاسی، سماجی اور مذہبی تنظیمیں کارنر میٹنگ اور مختلف سیمنار منعقد کر رہی ہیں۔

رجب علی قمر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ عوامی نمائندوں کی یہ تحریک عوام میں کافی سطح پر سرائیت اختیار کر گئی ہے۔ حتیٰ کہ جمعہ کے خطبوں میں گرین ٹورزم معاہدے کے خدوخال بیان کیے جا رہے ہیں جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ معاملہ ایسا نہیں ہے کہ دب جائے گا بلکہ یکطرفہ فیصلے کی صورت میں حالات کشیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت سنگین شکل اختیار کرسکتا ہے۔

رجب علی قمر کے مطابق لوگوں کے شکوک و شبہات میں اضافے کی وجہ معاہدے کا پبلک نہ ہونا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ وزیراعلیٰ بھی معاہدے کے بعض نکات سے بے خبر ہیں۔

تاہم صوبائی حکومت گلگت بلتستان میں سیاحت کے فروغ کے لیے ایس ایف آئی سی کے گرین ٹورزم منصوبے کو انقلابی اقدام قرار دیتی ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے گلگت بلتستان صوبائی حکومت کے ترجمان فیض اللہ فراق کا کہنا تھا کہ گرین ٹورزم کے تحت گلگت بلتسان کے تمام سرکاری خستہ حال گیسٹ ہاؤسز اور موٹل کی مرمت اور تزئین و آرائش کے بعد جدید طرز پر تعمیر کیا جائے گا۔

ان کے مطابق ان پراپرٹیز کو لیز پر دینے کے بعد خطیر تعداد میں سرمایہ کاری لائے جائے گی جس کے بعد یہاں کا انفراسٹرکچر بہتر ہو جائے گا۔ ان کے بقول اس سے سیاحت کو مزید فروغ ملے گا جو لوگوں کے روزگار میں اضافے کا سبب بنے گا۔

فیض اللہ فراق کے بقول حکومت اور گرین ٹورزم کے درمیان ہونے والا معاہدہ ایک مکمل بزنس ڈیل ہے۔ سرمایہ کاری سے حاصل ہونے والے سالانہ منافع کا 20 فی صد گلگت بلتستان میں سیاحت کے فروغ کے لیے استعمال ہو گا جب کہ سالانہ آمدنی کا 35 فی صد گلگت بلتستان حکومت کو صوبے کی ترقی کے لیے ملے گا۔

صوبائی ترجمان گلگت بلتستان حکومت کے مطابق یہ عوام کے لیے ایک پُرکشش پیکج ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں ان پراپرٹیز سے ایک روپے کی بھی آمدنی حاصل نہیں ہوئی تھی۔ یہ جگہیں اشرافیہ کی آماجگاہیں تصور کی جاتی تھیں بلکہ مرمت کے نام پر سالانہ 17، 18 کروڑ روپے کی لاگت آتی تھی۔

انہوں نے کہا کہ اس پروگرام کے تحت لوگوں کی ملکیتی زمینوں کو نہیں چھیڑا جا رہا ہے بلکہ ایسی تمام خستہ حال پراپرٹیز جو کہ صوبائی حکومت کے قومی خزانے پر بوجھ تھیں انہیں مثبت استعمال کے قابل بنایا جا رہا ہے۔

گلگت سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی عبدالرحمان بخاری کا کہنا ہے کہ اگرچہ حکومت اور عوامی ایکشن کمیٹی کے نمائندوں کے درمیان ایک 13 رکنی کمیٹی کے بنائے جانے پر اتفاق ہو گیا ہے۔ تاہم گرین ٹورزم کمپنی کی سرگرمیاں اب بھی جاری ہیں۔

عبدالرحمان بخاری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ گزشتہ دنوں پی ٹی ڈی سی اسکردو اور نلتر ریسٹ ہاؤس کے لیے ملازمین کی بھرتیوں کے لیے انٹرویوز لیے گئے تھے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ گرین ٹورزم کمپنی اپنے اہداف سے پیچھے ہٹنے والی نہیں ہے۔

ان کے بقول تاحال اس حوالے سے عوامی ایکشن کمیٹی کا مؤقف تو سامنے نہیں آیا ہے لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ ڈیڈ لاک کی صورت میں گلگت بلتستان کی سیاسی صورتحال مزید پیچیدہ شکل اختیار کر سکتی ہے۔



Source

RELATED ARTICLES

اپنی رائے کا اظہار کریں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

مقبول خبریں