|
پاکستان میں بجلی کی قیمتوں کے تعین کے لیے قائم ادارے ’نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی‘ (نیپرا) نے ایک ماہ کے لیے بجلی سات روپے سے زائد مزید مہنگی کرنے کی منظوری دے دی ہے۔
ایک جانب نیپرا کا کہنا ہے کہ بجلی مہنگی کرنے کی وجہ ایندھن کی مد میں آنے والے اخراجات میں اضافہ ہے۔ تو دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی نا اہلی، چوری کی سزا عام صارف کو دی جا رہی ہے۔
اتھارٹی نے فیصلے میں لکھا کہ ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے لیے بجلی خریدنے کی ذمہ دار سرکاری کمپنی سینٹرل پاور پرچیزنگ کمپنی کے پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں جنوری میں بجلی کی پیداواری قیمت فی یونٹ قیمت 14 روپے 60 پیسے رہی جب کہ صارفین سے سات روپے 48 پیسے چارج کیے گئے۔ یوں مزید سات روپے پانچ پیسے کی وصولی کا اختیار دیا جائے۔
اس بارے میں 23 فروری کو عوامی سماعت میں کمپنی نے مؤقف اختیار کیا کہ بجلی پیدا کرنے والے اگرچہ اصل ایندھن کی قیمت میں تو کوئی خاص فرق نہیں آیا۔ لیکن سرد موسم کے باعث بجلی کے نظام کی ترسیل کو برقرار رکھنے کے لیے دیگر ایندھن استعمال کیے گئے۔ موسمی حالات اور بجلی کی کم طلب کے پیش نظر آر ایف او، آر ایل این جی اور ہائی اسپیڈ ڈیزل سے زیادہ بجلی پیدا کی گئی جس کے باعث پیداواری لاگت میں اضافہ ہوا۔
تاہم اتھارٹی کا کہنا ہے کہ ملک کے جنوبی علاقوں میں دو سے 10 گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ کے دورانیے میں کمی لاکر شمالی علاقوں میں بجلی کی کم کھپت سے پیدا ہونے والے مسائل پر کسی حد تک قابو پایا جا سکتا تھا جس سے ایندھن کی مجموعی قیمت میں بھی کمی لائی جا سکتی تھی۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا اور ایسا نہ کرنے کا بوجھ صارفین پر ڈالا گیا جو پہلے ہی بجلی کے بھاری بل ادا کرنے پر مجبور ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے صارفین پر 66 ارب روپے کا بوجھ پڑے گا اور آئی ایم ایف کی جانب سے قرض کا حصول ممکن بنانے کے لیے گزشتہ سال متعدد بار بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑا تاکہ اس شعبے میں پائے جانے والے گردشی قرض کو کم کیا جاسکے۔ لیکن ملک میں بجلی کی قیمت میں مسلسل اضافہ جہاں عام صارفین کو ان کی کھپت کو کم کرنے پر مجبور کر رہا ہے تو دوسری جانب وہ صارفین جن کی بجلی کی کھپت زیادہ ہے وہ بھی اپنا تجارتی اور صنعتی کام بند کرنے یا پھر نیٹ میٹرنگ کی طرف جا رہے ہیں۔
خیال رہے کہ نیٹ میٹرنگ ایک بلنگ میکنزم ہے جو شمسی توانائی کے نظام کے مالکان کو اس بجلی کا کریڈٹ دیتا ہے جو وہ گرڈ میں شامل کرتے ہیں۔ توانائی کے امور کے ماہر سمیع اللہ طارق نے بتایا کہ اب پاکستان میں مارچ میں صنعتی صارفین کے لیے بجلی کی فی یونٹ قیمت 58 روپے 92 پیسے ہو جائے گی۔
توانائی سے متعلق امور پر نظر رکھنے والے ایک اور تجزیہ کار حمزہ خان کا کہنا ہے کہ ایک جانب تو ملک میں بجلی کے بلوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ مگر دوسری جانب اس کے باوجود بجلی کے شعبے میں گردشی قرضے میں بھی اضافہ دیکھا جا رہا ہے اور پاور سیکٹر میں گردشی قرضہ 2700 ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔
ان کے بقول اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے ذریعے گردشی قرضہ ختم کرنے کی پالیسی نتیجہ خیز نتائج دینے میں ناکام رہی ہے۔ چوری اور لائن لاسز سے نمٹنے کی حقیقی معنوں میں کوششیں نہیں ہو رہی۔ جب کہ زیادہ بلوں اور کم آمدنی کی وجہ سے ڈسٹریبیوشن کمپنیوں کی وصولیاں بھی مسلسل کم ہو رہی ہیں۔ لیکن حکام اس مسئلے کا حل نکالنے میں ناکام دکھائی دے رہے ہیں۔
ادھر آئی ایم ایف نے جنوری میں جاری رپورٹ میں حکومت سے توانائی کے سیکٹر میں ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کے ساتھ وسیع پیمانے پر اصلاحات کا بھی مشورہ دیا تھا جس کے لیے ملک میں بجلی کی ڈسٹریبیوشن کمپنیوں کی کارکردگی کو بہتر بنانا، ٹرانسمیشن لائنز کی بہتری، اداروں کے نقصانات کو کم کرنا، ان کمپنیوں کی مینجمنٹ کو پرائیوٹائز کرنا شامل ہے۔
بجلی پیدا کرنے والے نجی بجلی گھروں سے ٹیرف پر دوبارہ بات چیت کرنے کا بھی مشورہ دیا گیا ہے تاکہ بجلی کی پیداواری قیمت کو کم کیا جا سکے جب کہ فنڈ کی رپورٹ میں توانائی کے قابل تجدید ذرائع پر زیادہ انحصار کرنے کا مشورہ بھی شامل ہے۔
ادھر کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے صدر افتخار احمد شیخ نے نیپرا کی جانب سے جنوری کے لیے فیول چارجز ایڈجسٹمنٹ کی مد میں سات روپے سے زائد فی کلو واٹ اضافے کی اجازت دینے کے فیصلے کی شدید مذمت کی ہے ۔
افتخار احمد شیخ نے کہا ہے کہ یہ اضافہ کسی صورت بھی قابلِ قبول نہیں کیوں کہ اس سے نہ صرف کاروباری لاگت مزید بڑھے گی بلکہ عام آدمی کی مشکلات میں بھی اضافہ ہو گا جو مہنگائی کے موجودہ دور میں کسی نہ کسی طرح مشکل سے اپنا گزارا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ فیول چارجز کی مد میں جنوری کے لیے تمام کیٹگری کے صارفین سے سات روپے سے زائد فی کلو واٹ اضافی رقم وصول کرنے کی اجازت دینا انتہائی غیر منصفانہ عمل ہے۔ اس سے نہ صرف ہر گھرانے کا بجٹ متاثر ہو گا بلکہ پورے ملک میں ہر قسم کے مینوفیکچرنگ یونٹس کے لیے مارچ کے مہینے کے اخراجات میں بھی خوف ناک اضافہ ہو جائے گا۔
ان کے بقول کاروباری طبقہ پہلے ہی زائد لاگت کی وجہ سے اپنی بقا قائم رکھنے کے لیے سخت جدوجہد کر رہا ہے کیوں کہ پاکستانی اشیا بین الاقوامی منڈیوں میں مسابقتی اور عام آدمی کے لیے ناقابل برداشت ہو گئی ہیں۔
افتخار شیخ نے حکومت سے نیپرا کے غلط فیصلوں کا نوٹس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ریگولیٹر بے خوفی اور بے رحمی سے ٹیرف میں اضافہ کر تا چلا جارہا ہے اس سے قطع نظر کہ ان کے اقدامات کے نتیجے میں معیشت، تجارت و صنعت اور غریب عوام کی زندگیوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ ان کے لیے بھاری بھرکم بجلی کے بل ادا کرنا ناممکن ہوگیاہے۔
ان کے مطابق بجلی کے ناقابلِ برداشت بھاری بل خوف ناک صورتِ حال پیدا کر رہے ہیں جس میں صنعت کاروں کو اپنے یونٹس کو فعال رکھنا ناممکن لگتا ہے بلکہ بہت سی چھوٹے پیمانے پر صنعتیں یعنی ایس ایم ایز مکمل طور پر بند ہو چکی ہیں۔ بڑی صنعتوں نے بھی اپنی سرگرمیاں کم کر دی ہیں جس کے نتیجے میں درحقیقت پورے ملک میں لاکھوں افراد بے روزگار ہو چکے ہیں۔
انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ بڑی تعداد میں لوگ اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھنے اور بجلی کے ناقابلِ برداشت بلوں کو دیکھ کر ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا کہ وہ بجلی کے بل ادا نہ کریں اور کنڈا لگانے پر مجبور ہو جائیں۔ بجلی منقطع کرنے کے لیے آنے والے بجلی عملے کا سامنا کریں یا پھر سڑکوں پر نکل کر احتجاج کریں جس سے امن و امان کی صورتِ حال خراب ہو سکتی ہے اور معاشرے کا سارا نظام برباد ہو جائے گا۔
معاشی ماہرین نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا ہے کہ آنے والی حکومت کے پہلے مہینے ہی میں بجلی کی قیمتوں میں حالیہ اضافے سے ملک میں مہنگائی کی مجموعی شرح میں تیز اضافہ دیکھا جا سکتا ہے اور دوسری جانب حکومت نے حال ہی میں گیس کی قیمتوں میں بھی آئی ایم ایف کے مطالبے پر بڑا اضافہ کیا ہے تاکہ اس شعبے میں گردشی قرضے کو کم کیا جاسکے جب کہ آنے والے مہینے میں پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی اضافے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔