Friday, December 27, 2024
ہومPakistanحکومت اور مظاہرین کے درمیان مذاکرات میں ڈیڈ لاک، مظفر آباد میں...

حکومت اور مظاہرین کے درمیان مذاکرات میں ڈیڈ لاک، مظفر آباد میں سرکاری دفاتر اور تعلیمی ادارے بند



  • جوائنٹ ایکشن کمیٹی اور حکومت میں مذاکرات میں ڈیڈ لاک برقرار ہے۔
  • کمیٹی نے احتجاجی لانگ مارچ آج بھی جاری رکھنے کا عندیہ دیا ہے۔
  • کشمیر کے مرکزی شہر مظفر آباد میں کاروباری سرگرمیاں معطل ہیں جب کہ سرکاری دفاتر بند ہیں۔
  • حکومت نے احتجاج کے پیشِ نظر انٹرنیٹ کے بعد اب موبائل فون سروسز بھی معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر مہنگائی کے خلاف احتجاج منظم کرنے والی جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی اور حکومت کے درمیان مذاکرات میں ڈیڈ لاک برقرار ہے۔ کمیٹی نے احتجاجی لانگ مارچ جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ مظفر آباد میں بازاروں میں تجارتی سرگرمیاں معطل ہیں جب کہ سرکاری عمارات بھی بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

اتوار اور پیر کی درمیانی شب حکومت اور لانگ مارچ منظم کرنے والی جوائنٹ ایکشن کمیٹی میں مذاکرات ہوئے جن میں کمیٹی نے حکومت کی کسی بھی یقین دہانی کو ماننے سے انکار کر دیا ہے۔

کمیٹی نے لانگ مارچ جاری رکھنے کا اعلان کیا۔ لانگ مارچ میں شریک قافلوں نے راولاکوٹ سے مظفرآباد کی طرف سفر کا آغاز کر دیا ہے۔

کشمیر میں حکومت نے لانگ مارچ کے پیش نظر 13 مئی کو مظفرآباد میں سرکاری دفاتر اور تعلیمی اداروں کو بند رکھنے کا فیصلہ کیا۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز موبائل انٹرنیٹ سروسز بھی معطل کر دی گئی تھیں۔ ذرائع کے مطابق حکومت نے موبائل انٹرنیٹ سروسز کے بعد اب موبائل فون سروس بھی معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

دوسری جانب پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے کشمیر کی صورتِ حال پر غور کے لیے ہنگامی اجلاس اسلام آباد میں طلب کر لیا ہے۔ پیر کو ہونے والے اجلاس میں کشمیر حکومت کے اعلیٰ حکام کو بھی مدعو کیا گیا ہے۔

قبل ازیں سوشل میڈیا پر ایک بیان میں شہباز شریف نے صورتِ حال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ مطالبات کے حل کے لیے پرامن لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔

واضح رہے کہ اتوار کو پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں جاری احتجاجی لانگ مارچ میں شریک قافلے موسم کی خرابی کے باوجود راولاکوٹ شہر پہنچے تھے۔

کشمیر میں احتجاج کا یہ سلسلہ تین روز قبل شروع ہوا تھا۔ احتجاج میں کئی مقامات پر پر تشدد مظاہرے ہو چکے ہیں جس میں ایک پولیس اہلکار ہلاک اور کئی درجن مظاہرین زخمی ہوئے۔

بجلی کی قیمتوں میں کمی اور گندم کے آٹے کی قیمت پر سبسڈی کی فراہمی کے مطالبات پر احتجاج کو منظم کرنے والی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کا کہنا ہے کہ مختلف شہروں میں پولیس نے کئی درجن مظاہرین کو گرفتار بھی کیا ہے۔

کشمیر میں احتجاج کا سلسلہ گزشتہ ایک سال سے جاری ہے۔ اس دوران حکومت اور جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے ذمہ داران کے درمیان مذاکرات کے کئی ادوار ہو چکے ہیں تاہم یہ مذاکرات نتیجہ خیز نہیں رہے۔

گزشتہ برس مئی سے شروع ہونے والی اس تحریک کے دو بڑے مطالبات ہیں جن میں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے دریاؤں سے پیدا ہونے والی بجلی ضرورت کے مطابق پیداواری لاگت پر واپس مقامی آبادی کو فراہم کرنے اور گندم کے آٹے کی قیمتوں پر گلگت بلتستان کے طرز پر سبسڈی دینے کے مطالبات شامل ہیں۔

دیگر مطالبات میں بیورو کریسی اور اشرافیہ کی سرکاری مراعات میں کمی، منتخب بلدیاتی نمائندہ کو ترقیاتی فنڈز کی منتقلی، کشمیر میں موبائل فون اور انٹرنیٹ سروسز کی بہتری، طلبہ یونین کی بحالی، کشمیر بینک کو شیڈولڈ بینک قرار دینے اور منگلا ڈیم پر رٹھوعہ ہریام پل کی تکمیل جیسے مطالبات شامل ہیں۔

ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کی گزشتہ ہفتے شائع ہونے والی سالانہ رپورٹ کے مطابق اس تحریک کے اوائل میں حکومت کی جانب سے اسے دبانے کے لیے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں’ کی گئیں۔

رپورٹ کے مطابق مظاہرین اور پولیس میں تصادم کے دوران کئی شہریوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا- یہ بھی کہا گیا ہے کہ احتجاج پر غداری اور بغاوت جیسی دفعات کے تحت کم از کم چار مقدمات درج کر کے 53 شہریوں کو گرفتار بھی کیا گیا تھا۔



Source

RELATED ARTICLES

اپنی رائے کا اظہار کریں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

مقبول خبریں