Tuesday, December 31, 2024
ہومPakistanفیک نیوز پھیلانے کا الزام؛ کیا لاہور سے گرفتار ملزم کو برطانیہ...

فیک نیوز پھیلانے کا الزام؛ کیا لاہور سے گرفتار ملزم کو برطانیہ کے حوالے کیا جا سکتا ہے؟


  • برطانیہ میں فیک نیوز پھیلانے کے الزام میں لاہور سے گرفتار شخص کو عدالت میں پیش کر دیا گیا۔
  • عدالت نے ملزم کا ایک روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کر لیا۔
  • ملزم کے خلاف پیکا ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے: ایف آئی اے
  • پاکستان اور برطانیہ کے درمیان ملزمان کی حوالگی کا معاہدہ موجود نہیں، لیکن برطانیہ حوالگی کی درخواست کر سکتا ہے: ماہرِ قانون امجد ملک

لاہور — فیک نیوز کے ذریعے برطانیہ میں پرتشدد ہنگاموں اور فسادات کو بھڑکانے کے الزام میں لاہور سے گرفتار ملزم کو عدالت میں پیش کر دیا گیا ہے۔ ملزم فرحاں آصف کے خلاف پیکا ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

بدھ کو وفاقی تفتیشی ادارے (ایف آئی اے) نے ملزم کو لاہور کی عدالت میں پیش کیا۔ ایف آئی اے نے عدالت سے ملزم کا 14 روزہ ریمانڈ طلب کیا۔ تاہم عدالت نے ایک روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے اسے ایف آئی اے کے حوالے کر دیا۔

ایف آئی اے کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ملزم کے خلاف مقدمہ پیکا ایکٹ کی دفعہ نو اور 10 اے کے تحت درج کیا گیا ہے۔

برطانیہ میں فسادات اور اس سے پاکستانی شہری کے تعلق کا معاملہ عوامی حلقوں میں موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔

برطانیہ میں ہنگاموں کا سلسلہ شمالی برطانوی قصبے ساؤتھ پورٹ میں 29 جولائی کو تین کمسن لڑکیوں کے قتل کے ردعمل میں شروع ہوا تھا جس کا سوشل میڈیا پر غلط طور پر الزام ایک مسلم پناہ گزین پر لگایا گیا تھا۔

ان جھوٹی خبروں کے پھیلنے کے بعد برطانیہ بھر کے شہروں اور شمالی آئرلینڈ میں بھی تشدد پھوٹ پڑا تھا۔ لیکن حالیہ چند روز میں بدامنی کے واقعات میں ملوث افراد کی شناخت میں تیزی آنے کے بعد ہنگاموں اور تشدد میں کمی آ گئی ہے۔

فرحان آصف نامی شخص کو منگل کو لاہور کے علاقے ڈیفنس سے حراست میں لیا گیا تھا۔

وائس آف امریکہ کی رشین سروس کے انوسٹی گیٹیو رپورٹر میتھیو کمپفر نے نو اگست کو اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں پہلی مرتبہ اس فیک نیوز اور فرحان آصف کی ویب سائٹ ‘چینل تھری ناؤ’ کا انکشاف کیا تھا۔

تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ‘چینل تھری ناؤ’ نے خود کو امریکی ویب سائٹ ظاہر کر کے خبر دی کہ ساؤتھ پورٹ حملے کا ملزم 17 سالہ مسلمان پناہ گزین علی ال شکاتی ہے۔ یہ خبر سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھی۔ حالاں کہ علی ال شکاتی نام کے نوجوان کو سرے سے کوئی وجود ہیں تھا اور نہ ہی ‘چینل تھری ناؤ’ کوئی امریکی نیوز ویب سائٹ ہے۔

غلط معلومات کے پھیلاؤ کی وجہ سے برطانوی پولیس نے اصل حملہ آور کی شناخت ظاہر کی تھی جس کی عمر 17 برس اور نام ایکسل روڈاکوبانا ہے۔ وہ نہ ہی مہاجر اور نہ ہی مسلمان، لیکن اس کے باوجود برطانیہ میں ہنگاموں میں کمی نہیں آئی تھی۔

کیا ملزم کو برطانیہ کے حوالے کیا جا سکتا ہے؟

قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ گو کہ برطانیہ اور پاکستان کے درمیان ملزمان کی حوالگی کا باضابطہ معاہدہ نہیں ہے۔ تاہم ماضی میں کچھ واقعات پر دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے رہے ہیں۔

برطانیہ میں مقیم بیرسٹر امجد ملک بتاتے ہیں کہ برطانیہ کے شہر گلاسکو میں ایک قتل ہوا تھا جس کا ملزم بعد ازاں پاکستان آ گیا تھا۔ جنہیں پاکستان سے گرفتار کر کے برطانیہ کے حوالے کیا گیا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اسی طرح متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے رہنما ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیا تھا۔

بیرسٹر امجد ملک بتاتے ہیں کہ الیکٹرانک کرائم کے تحت قوانین بنائے ہی اِس لیے جاتے ہیں کہ کوئی بھی شخص برطانیہ میں بیٹھ کر پاکستان میں پرتشدد واقعات کو نہ اُبھار سکے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ایسے معاملات میں جتنا تعاون پاکستان کرے گا اتنا ہی تعاون برطانیہ کرے گا۔

ایف آئی آر میں کیا ہے؟

ملزم فرحان آصف کے خلاف درج کی گئی ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ دورانِ تفتیش ملزم فرحان آصف نے اعتراف جرم کر لیا ہے۔ ملزم نے ‘ایکس’ اکاؤنٹ پر انگلینڈ میں چاقو زنی کے واقعے کی تصاویر شیئر کیں اور ویب سائٹ پر فیک آرٹیکل پبلش کیا۔

ایف آئی آر کے مطابق آرٹیکل میں 17 سالہ علی ال شکاتی کو چاقو زنی واقعے کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ آرٹیکل میں جھوٹا دعویٰ کیا گیا کہ گرفتار ہونے والا مسلمان ہے اور حملہ آور کو برطانیہ میں پناہ گزین بھی بتایا گیا۔

ملزم سے پہلے ہی فیک نیوز شیئر ہو چکی تھی: لاہور پولیس

ڈی آئی جی آپریشن فیصل کامران کا دعویٰ ہے کہ فرحان آصف تیسرا شخص نے جس نے اِس خبر کو شئیر کیا۔ اُن کا کہنا تھا برطانیہ میں ہونے والے ہنگاموں کی خبر سب سے پہلے روس کی ویب سائٹ پر شیئر کی گئی۔

اُن کا مزید کہنا تھا کہ جب فرحان آصف نے یہ خبر شئیر کی تو یہ خبر مزید پھیلتی گئی اور وائرل ہو گئی۔ اُس کے بعد برطانوی نجی نشریاتی ادارے نے کہنا شروع کر دیا کہ یہ خبر پاکستان سے نکلی ہے جب کہ ‘بی بی سی ویری فائی’ اور دیگر ذرائع نے کہا کہ پاکستانی شخص تیسرا بندہ ہے جس نے یہ خبر شئیر کی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ تفصیلات سامنے آنے پر تفتیش شروع کی۔ اُن کا کہنا تھا کہ اِس شخص سے متعلق کچھ تفصیل برطانوی ادارے نشریاتی ادارے بی بی سی پر ویری فائی پر بھی موجود تھیں۔ اِسی دوران برطانیہ میں ہونے والے ہنگاموں سے متعلق نیٹ پر دستیاب مواد اکٹھا کرنا شروع کیا۔

ڈی آئی جی فیصل کامران کا کہنا تھا کہ بات جب زیادہ بڑھی تو پاکستانی شخص فرحان آصف نے اپنے چینل سے خبر کو ہٹا دیا اور معافی نامہ لکھ دیا۔

ڈی آئی جی کے مطابق ملزم نے معافی میں لکھا کہ وہ ایک فری لانسر ہے۔ اُس نے صرف اپنے لائیکس اور فالورز بڑھانے کے لیے خبر کو پھیلایا تھا کیوں اُسے فری لانسنگ سے ماہانہ دو سے ڈھائی لاکھ روپے آمدنی ہوتی ہے۔

فرحان آصف نے بتایا کہ اُسے نہیں معلوم تھا کہ معاملہ اتنا بڑھ جائے گا۔



Source

RELATED ARTICLES

اپنی رائے کا اظہار کریں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

مقبول خبریں