|
صرف چند ماہ پہلے پاکستان کے پاس اپنے درآمدی بلز کی ادائیگی کے لیے محض 15 روز کا زرمبادلہ باقی تھا۔ یعنی آسان الفاظ میں اس کے خزانے میں صرف اتنے ہی ڈالرز موجود تھے جس سے وہ بیرون ملک سے منگوائے گئے دو ہفتوں کے سامان کی ادائیگی کر سکتا تھا۔
لیکن معاشی اشاریے بتاتے ہیں کہ اب اس کمزور معیشت میں کئی ماہ کے بعد بحالی کے کچھ آثار ظاہر ہونا شروع ہوئے ہیں جس پر حکام کی جانب سے اسے کامیابی کے طور پر بیان کیا جا رہا ہے۔
دوسری جانب تجزیہ کاروں اور مبصرین کا کہنا ہے کہ استحکام کی نئی علامات کو پنپنے اور ایک عام شہری تک اس کے ثمرات پہنچانے کے لیے پالیسیوں میں تسلسل اور مستقل مزاجی کی اشد ضرورت ہے۔
ملکی معیشت کے ماہانہ اشاریے بتاتے ہیں کہ ایک طرف ملک کے جاری کھاتوں یعنی کرنٹ اکاؤنٹ کا توازن پچھلے مہینے یعنی مارچ میں میں نو سال کے دوران سب سے زیادہ مثبت رہا یعنی ایک ماہ میں ملک کی درآمدات اور دیگر ادائیگیاں کم رہیں جب کہ برآمدات سے حاصل ہونے والی آمدن، ترسیلاتِ زر یعنی بیرون ملک سے بھیجی گئی رقوم اور ڈالر کے ان فلوز زیادہ رہے۔
پاکستان میں براہ راست سرمایہ کاری میں اضافہ
یہی نہیں بلکہ دوسری طرف ملک میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے اور گزشتہ سال مارچ کے مقابلے اس سال مارچ میں 51.7 فی صد اضافے کے ساتھ یہ سرمایہ کاری 258 ملین ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔
لیکن اعداد و شمار یہ بھی بتاتے ہیں کہ رواں مالی سال کے آغاز یعنی جولائی سے مارچ تک گزشتہ سال کی اسی مدت میں 1.2 ارب ڈالر کی آمد کے مقابلے میں ملک کو اس سال 1.09 ارب ڈالر موصول ہوئے ہیں جو مجموعی طور پر 9.7 فی صد کی کمی یا 118 ملین ڈالر کے نقصان کو ظاہر کرتا ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان خطے میں سب سے کم بیرونی براہ راست سرمایہ کاری حاصل کرنے والا ملک ہے اور یہ شرح سالانہ دو ارب ڈار کے اردگرد رہتی ہے۔
بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ایک ماہ میں تین ارب ڈالر کی ریکارڈ رقوم کی ترسیل
اپریل کے شروع میں آنے والے اعداد و شمار کے مطابق بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے وطن رقوم بھیجنے میں بھی تیزی دیکھی گئی ہے اور اس بار یہ ریکارڈ تین ارب ڈالر سے بھی زیادہ رہی ہیں۔
مرکزی بینک کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال کے پہلے نو ماہ کے دوران بیرون ملک مقیم کارکنوں کی ترسیلاتِ زر کی مد میں 21 ارب ڈالر کی رقم آئی ہے جو گزشتہ مالی سال کے ابتدائی 9 مہینوں کے 20.8 ارب ڈالر کی نسبت 0.9 فی صد زیادہ ہے۔
وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب اس امید کا اظہار کر رہے ہیں کہ اگلے تین ماہ میں ترسیلات سے آنے والی مجموعی رقم 29 ارب ڈالر تک ہو سکتی ہے۔
خیال رہے کہ ترسیلاتِ زر ملک کے بیرونی اکاؤنٹ کو سپورٹ کرنے اور پاکستان میں معاشی سرگرمیوں کو متحرک رکھنے کے ساتھ ترسیلات زر پر منحصر گھرانوں کی آمدنی کو بڑھانے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
اسٹاک مارکیٹ میں تیزی، انڈیکس تاریخ کی بلند ترین سطح پر
نہ صرف یہ بلکہ مثبت معاشی اشاریوں اور آئی ایم ایف سے اسٹینڈ بائی معاہدے کے تحت 1.1 ارب ڈالر کی رقم ملنے کے امکانات روشن ہونے کے باعث پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں بھی اس وقت خاصی تیزی دکھائی دے رہی ہے۔
انڈیکس 71 ہزار سے اوپر تاریخ کی بلند ترین سطح پر موجود ہے۔ گزشتہ چار ماہ میں اسٹاک مارکیٹ انڈیکس میں 14 فی صد کا اضافہ دیکھا گیا ہے جس سے مارکیٹ کا کُل حجم بڑھ کر 88 ملین ڈالرز ریکارڈ کیا گیا ہے۔
ایک اور اہم سیکٹر یعنی آئی ٹی میں بھی پاکستان نے مارچ میں 306 ملین امریکی ڈالر کی برآمدات ریکارڈ کیں۔ یہ کسی ایک مہینے میں اب تک کی سب سے زیادہ آئی ٹی برآمدات ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق مارچ 2024 میں یہ ماہانہ آئی ٹی برآمدات گزشتہ 12 ماہ کی اوسط 238 ملین امریکی ڈالر سے زیادہ ہیں۔
کیا معیشت میں سب کچھ بہتر ہو گیا ہے؟
لیکن معاشی ماہرین اور مبصرین کے مطابق سب کچھ اچھا نہیں ہے۔ ماہانہ کلیدی اقتصادی اشاریے یہ بھی بتاتے ہیں کہ بیرونی اور اندرونی شعبوں میں مختلف چیلنجز بدستور موجود ہیں۔
تجزیہ کار عبدالعظیم نے کہا کہ معاشی بحالی کے ایسے امید افزا اشاریے نئے نہیں ہیں۔
پاکستان کی معاشی تاریخ اور حالیہ تاریخ میں بھی یہ مختلف مواقع پر دیکھے گئے ہیں۔ لیکن بعد میں یہ چیزیں بلُبلوں کی مانند ثابت ہوتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معیشت کا زیادہ تر انحصار قرضوں پر ہے اور ہمیں اگلے چند سال کے دوران مسلسل 25 ارب ڈالر کی خطیر رقم واپس کرنی ہے اور اس کے ساتھ اپنے اخراجات بھی چلانے ہیں۔
ایسے میں ماہانہ اعداد و شمار کو بنیاد بناکر قطعاً نہیں کہا جا سکتا کہ بہتری آ چکی ہے اور بہتری کے اثرات جب تک عوام کو منتقل نہ ہوں اس وقت تک یہ محض الفاظ ہیں اور انہیں اعداد و شمار کا گورکھ دھندا سمجھا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ عام آدمی کی معاشی حالت بہتر ہونے، روزگار ملنے، بنیادی ضروریات پوری ہونے اور پاکستان کو اپنے پیروں پر معاشی طور پر مستحکم ہونے میں طویل سفر باقی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ابھی اس کا نیا آغاز ہوا ہے۔
معیشت کو مستحکم بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے کیا کرنا ہو گا؟
عبدالعظیم کا کہنا تھا کہ پاکستان کو معیشت کے بیرونی سیکٹر کو استحکام دینے کے لیے جہاں برآمدات بڑھانے کی اشد ضرورت ہے وہیں اندرونی استحکام کے لیے ٹیکس نظام میں اصلاحات کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔
گزشتہ مالی سال پاکستان میں جی ڈی پی کے مقابلے میں ٹیکس جمع کرنے کی شرح محض 9.24 فی صد ریکارڈ کی گئی جو اس سال بھی اتنی ہی رہنے کا امکان ہے۔ اسے کم از کم 15 فی صد تک بڑھانا ہو گا اور اس کے لیے حکومت نے بعض اقدامات کیے تو ہیں لیکن ابھی ان کے اثرات آنا باقی ہیں۔ جب کہ دوسری جانب اخراجات کی رفتار کافی تیز ہے اور یہ گزشتہ سال جی ڈی پی کا 19 فی صد سے بھی زیادہ رہے ہیں انہیں کم کرنے کی گنجائش موجود ہے۔
معاشی ماہر ریاض علی کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معیشت گزشتہ سال بڑھنے کے بجائے سکڑی تھی۔ ملک میں سیاسی عدم استحکام اور معاشی غیر یقینی کے باعث سروسز اور صنعتی سیکٹر کی کارکردگی کافی خراب رہی تھی۔
لیکن اس کے مقابلے میں گزشتہ سال زرعی شعبے میں کچھ بہتری دیکھی گئی اور اس سال بھی زراعت کا شعبہ دیگر شعبوں کے مقابلے میں بہتر پرفارمنس دے رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ فصلوں کی بہتر پیداوار کے باعث جی ڈی پی دو فی صد کے قریب رہنے کی توقع کی جا رہی ہے اور انہی اثرات کے باعث ملک میں گندم کے آٹے کی قیمت کم ہوئی جب کہ دیگر زرعی اجناس کی قیمتوں میں بھی استحکام دیکھا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بہتر زرعی پیداوار کی وجہ سے ملک میں مجموعی مہنگائی میں کمی آئی ہے اور امید کی جا رہی ہے کہ اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی کی آئندہ میٹنگ میں جو 29 اپریل کو ہونے جا رہی ہے، پالیسی ریٹ کم ہونے کی توقع ہے جو اس وقت 22 فی صد کی بلند شرح پر ہے۔
اس کی وجہ سے ملک میں تاجروں اور صنعت کاروں کو مشکلات کا سامنا ہے اور اس کے باعث ملک میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔
عبدالعظیم نے زور دیا کہ حکومت کو پالیسیوں کے تسلسل پر توجہ دینی چاہیے اور اسے ایسے بڑے فیصلے لینے ہوں گے جنہوں نے گزشتہ 25 برسوں میں ہماری معیشت کو تباہ کر دیا ہے۔
ان کے خیال میں ٹیکس نظام میں اصلاحات متعارف کرانا، اسمگلنگ کو روکنا، صنعتی ترقی کے لیے بہتر سہولیات کی فراہمی، غیر ضروری اخراجات کی کٹوتی اور انسانی سرمائے کو مزید قابل عمل بنانے جیسے اقدامات ہی سے بہتر نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔
عبدالعظیم نے کہا کہ ملکی معیشت کی بہتری کے لیے چیلنجز بہت بڑے ہیں اور پاکستان نے ان چیلنجز کو عبور کرنے کے لیے ابھی ایک نیا آغاز کیا ہے۔
پاکستان کے لیے آئی ایم ایف پروگرام ناگزیر، ٹیکس کی شرح بڑھانے کے اقدامات کر رہے ہیں: وزیرِ خزانہ
دوسری جانب وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے ایک بار پھر کہا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام میں پاکستان کی شمولیت اس کے معاشی استحکام کے لیے اہم ہے اور اس حوالے سے کوئی پلان بی نہیں ہے۔ پاکستان کو اب ان پالیسی نسخوں پر عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہے جو ایک طویل عرصے سے پیش کیے جا رہے ہیں۔
محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کی ٹیم مئی کے وسط میں پاکستان آئے گی جب کہ اسٹاف لیول معاہدہ جون یا جولائی میں ہونے کا امکان ہے۔
اسلام آباد میں بزنس سمٹ 2024 سے خطاب کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیرِ خزانہ نے کہا کہ پاکستان کے بارے میں آئی ایم ایف بورڈ کا رواں ہفتے آنے کا امکان ہے اور اس ہفتے کے آخر تک قسط ملنے سے زرِمبادلہ ذخائر بہتر ہو جائیں گے۔
دوسری جانب حکومت نے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور مالیاتی خسارے کو قابو میں رکھنے کا ہدف طے کر رکھا ہے جس پر سختی سے عمل درآمد جاری ہے۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ایس بی اے ناگزیر تھا۔ آئی ایم ایف سے ہم مائیکرو اکنامک استحکام کے لیے پروگرام لیں گے۔
وزیرِ خزانہ نے دعویٰ کیا کہ حکومت ایسے اقدامات کر رہی ہے کہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح آئندہ تین چار سالوں میں 13 سے 14 فی صد تک لے جائی جا سکے۔