|
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں بجلی اور آٹے کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف احتجاج کرنے والی ‘جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی’ نے مطالبات کی منظوری کے بعد پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن ہڑتال ختم کر دی ہے۔
‘جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی’ کے پلیٹ فارم سے ہزاروں افراد مطالبات کے حق میں مختلف اضلاع سے اتوار کو مظفر آباد پہنچے تھے۔ مظاہرین اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں اور مختلف واقعات میں ایک افسر سمیت چار افراد ہلاک اور 100 سے زیادہ زخمی ہوئے۔
پانچ روز تک جاری رہنے والی کشمکش کے بعد حکومت نے پیر کو مظاہرین کے مطالبات منظور کیے اور جواب میں ‘جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی’ نے احتجاج ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔
گزشتہ برس مئی میں ضلع پونچھ کے ہیڈکوارٹر راولاکوٹ سے احتجاجی تحریک کا آغاز اُس وقت ہوا تھا جب پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی حکومت نے آٹے کی قیمتوں میں اچانک دو گنا اضافہ کر دیا تھا۔
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں سرکاری سطح پر فی کلو آٹے کی قیمت 42 روپے مقرر تھی جس میں مرحلہ وار اضافے کے ذریعے حکومت اسے 97 روپے فی کلو تک لگے گئی۔ اس کے علاوہ حکومت نے بجلی کی فی یونٹ قیمت بھی سات روپے سے بڑھا کر 19 روپے کی اور مزید کئی طرح کے ٹیکسز کا بھی اضافہ کر دیا۔
آٹے کے بعد بجلی کی قیمتوں میں اچانک کئی گنا اضافے کے بعد پونچھ کے بعد مظفرآباد اور میرپور کے اضلاع میں بھی احتجاج شروع ہو گیا جو بتدریج تمام دس اضلاع تک پھیل گیا۔
ابتدائی طور پر راولاکوٹ سے شروع ہونے والی احتجاجی تحریک کا مقصد آٹے کی قیمتوں میں کمی اور سبسڈی کی بحالی تھا۔ تاہم جوں جوں احتجاج میں مزید لوگ شامل ہوتے گئے اور مطالبات میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا۔
مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر چوں کہ ایک متنازع علاقہ ہے اس لیے یہاں بھی گلگت بلتستان کی طرح رعایتی قیمت پر بجلی اور آٹے کی فراہمی حکومتِ پاکستان کی ذمہ داری ہے۔
گلگت بلتستان میں حکومت کی جانب سے آٹے کی رعایتی قیمت 25 روپے فی کلو گرام جب کہ گھریلو استعمال کے لیے بجلی کی فی یونٹ قیمت تین سے چار روپے ہے۔
جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کن افراد پر مشتمل ہے؟
آٹے کے بحران اور قیمتوں میں اضافے کے خلاف آٹھ مئی 2023 کو سول سوسائٹی کی جانب سے پونچھ عوامی ایکشن کمیٹی کا نام پہلی مرتبہ سامنے آیا۔
بعد ازاں بجلی کے بلوں میں دو گنا اضافے کے خلاف مظفرآباد میں احتجاجی تحریک شروع ہوئی تو پونچھ عوامی ایکشن کمیٹی نے بھی اسے اپنے مطالبات میں شامل کر لیا۔ اسی دوران میرپور ڈویژن کی سول سوسائٹی بھی ان مطالبات کے حق میں سامنے آ گئی اور یوں احتجاج کا سلسلہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے تمام دس اضلاع تک پھیل گیا۔
اسی احتجاج کے دوران تمام دس اضلاع میں مقامی سطح پر ایکشن کمیٹیاں تشکیل دی گئیں اور پھر ان کمیٹیوں کے نامزد کردہ نمائندوں پر مشتمل ‘جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی’ قائم ہوئی۔ تیس رکنی کمیٹی میں تاجر، وکلا، سول سوسائٹی، کونسلرز اور طلبہ تنظیموں کے نمائندگان شامل ہیں۔
اگرچہ ان کمیٹیوں میں مختلف نظریات کی حامل سیاسی جماعتوں کے کارکن شامل ہیں تاہم کسی معروف سیاسی شخصیت یا منتخب عوامی نمائندے کو اس فورم کا حصہ نہیں بنایا گیا۔
مظفرآباد میں کمیٹی کے ترجمان فیصل جمل کے بقول اس کا مقصد احتجاجی تحریک کو کسی مخصوص جماعت یا نظریے کی چھاپ لگنے سے بچانا تھا۔
ترجمان نے بتایا کہ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی میں تمام سیاسی نظریات کے افراد شامل ہیں مگر کمیٹی کا کوئی سیاسی مطالبہ نہیں اور تمام افراد عوامی حقوق کی بات کرتے ہیں۔
ایکشن کمیٹی کے مطالبات کیا تھے؟
جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی احتجاجی تحریک کے آغاز میں آٹے اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کے مطالبات شامل تھے۔ تاہم ضلعی سطح پر ایکشن کمیٹیوں کی تشکیل اور ڈویژن کی سطح پر جوائنٹ ایکشن کمیٹیوں کی تشکیل کے بعد پانچ ستمبر 2023 کو میرپور اور پونچھ ڈویژن میں پہیہ جام ہڑتال کی گئی۔
سترہ ستمبر 2023 کو تینوں ڈویژنز کی جوائنٹ ایکشن کمیٹیوں کے لگ بھگ 200 نمائندوں کا اجلاس مظفرآباد میں ہوا جس میں جموں وکشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے نام سے ایک مرکزی فورم کی تشکیل کے علاوہ متفقہ چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا گیا۔
اس چارٹر آف ڈیمانڈ میں یہ اہم مطالبات شامل تھے:
1۔ گندم کے آٹے پر گلگت بلتستان کے برابر سبسڈی دی جائے۔
2۔ منگلا ہائیڈرو پاور پراجیکٹ سے پیدا ہونے والی بجلی کی فی یونٹ پیداواری لاگت کے برابر قیمت پر بجلی کی فراہمی
3۔ وزراء اور بیورکریسی کی غیر ضروری مراعات کا خاتمہ اور اخراجات میں کمی
4۔ طلبہ یونینز پر پابندی کے خاتمے کے نوٹی فکیشن پر عمل درآمد کرتے ہوئے انتخابات منعقد کروائے جائیں۔
5۔ ‘آزاد جموں و کشمیر’ بینک کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے شیڈولڈ بینک کا درجہ دلوانا۔
6۔ منتخب بلدیاتی نمائندوں کو ترقیاتی فنڈز اور اختیارات کی منتقلی
7۔ نجی سیلولر کمپنی کو اپنا دائرہ کار پورے کشمیر تک بڑھانے کی اجازت دینے سمیت انٹرنیٹ سروسز کا معیار اور دائرہ کار بڑھانا
8۔ پراپرٹی ٹرانسفر ٹیکس میں کمی لانا
9۔ احتساب ایکٹ میں ترمیم، تصیح کر کے احتساب بیورو کو فعال کرنا
10۔ کشمیر کے جنگلات میں درختوں کی کٹائی پر عملاً پابندی لگا کر لکڑی کشمیر سے بایر لے جانے کے بجائے مقامی سطح پر ووڈ انڈسٹری کو فعال کرنا شامل تھا۔
احتجاجی تحریک کے دوران کب کیا ہوا؟
آٹھ مئی 2023 سے شروع ہونے والا احتجاج پورا سال کسی نہ کسی شکل میں جاری رہا۔ اس دوران عوام کی ایک بڑی تعداد نے بجلی کے بل جمع کروانے سے انکار کیا اور بجلی کے بل بینک میں جمع کرانے کے بجائے راولاکوٹ اور مظفرآباد میں لگے احتجاجی کیموں میں جمع کیے جانے لگے۔ بعض اوقات بلوں کو یا تو نذر آتش کر دیا جاتا یا انہیں دریا میں بہا دیا جاتا۔
بجلی بائیکاٹ کی اس مہم کے دوران پولیس نے کئی مرتبہ مظاہرین پر کریک ڈاؤن کیا۔ پونچھ ڈویژن میں وسیع پیمانے پر کریک ڈاؤن اور پولیس کے ساتھ تصادم میں کئی مظاہرین زخمی اور گرفتار بھی ہوئے۔
پولیس ریکارڈ کے مطابق احتجاجی تحریک کے دوران گزشتہ برس کل 48 مقدمات درج ہوئے جن میں 480 افراد کو نامزد کیا گیا لیکن 53 افراد گرفتار ہوئے۔ بیشتر مقدمات بغاوت، غداری اور کارِ سرکار میں مداخلت کی دفعات کے تحت درج ہوئے۔
پونچھ ڈویژن میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان کئی مرتبہ تصادم بھی ہوا اور جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے الزام لگایا کہ گرفتار افراد پر پولیس حراست میں بے تحاشہ تشدد ہوا۔ ان میں سے کئی افراد ایک ماہ تک پولیس حراست میں رہے۔
مظفرآباد پولیس نے 30 ستمبر کو سینٹرل پریس کلب کے باہر احتجاجی کیمپ کو اکھاڑ کر پھینکتے ہوئے 30 سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا جن میں عوامی ایکشن کمیٹی کے مرکزی رہنما فیصل جمیل کشمیری بھی شامل تھے جب کہ ایکشن کمیٹی کے ایک اور رہنما شوکت نواز میر کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے گئے۔
پولیس کریک ڈاؤن کے ردِعمل میں پانچ اکتوبر کو ہزاروں افراد مظفرآباد کے گیلانی چوک میں جمع ہوئے اور احتجاج کیا جس کے نتیجے میں حکومت کو گرفتار افراد کو رہا کر دیا۔
پانچ اکتوبر 2023 کے احتجاج کے بعد حکومت اور جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے درمیان مذاکرات پر اتفاق ہوا۔ حکومت نے فیصل ممتاز راٹھور کی سربراہی میں مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی جس نے 30 نومبر کو جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں سے مذاکرات کیے۔
مذاکرات کے کئی ادوار کے بعد 20 دسمبر کو حکومت نے بجلی کی پیداواری لاگت پر فراہمی کے علاوہ تمام دوسرے مطالبات مان لیے اور طے ہوا کہ 10 جنوری تک حکومت مطالبات کی منظوری کا نوٹی فکیشن جاری کرے گی۔
مقررہ تاریخ تک حکومت کی جانب سے کوئی پیش رفت سامنے نہ آنے پر جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے پانچ فروری کو یومِ یکجہتی کشمیر کے موقع پر احتجاج کی کال دے دی۔ تاہم حکومت نے چار فروری کو 10 میں سے 9 مطالبات ماننے کا نوٹی فکیشن جاری کر دیا اور اس پر عمل درآمد کے لیے 30 مارچ تک کا وقت طے ہوا جس پر ہڑتال کی کال واپس لے لی گئی۔
تیس مارچ 2024 تک حکومت کے جاری نوٹی فکیشن پر عمل درآمد نہ ہونے پر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے ایک مرتبہ پھر احتجاج کی کال دی اور اس مرتبہ شٹر ڈاون اور پہیہ جام کے ساتھ ساتھ تمام اضلاع سے دارالحکومت مظفرآباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان ہوا۔
ایکشن کمیٹی پر غیر ملکی آلہ کار ہونے کے الزامات
احتجاجی تحریک کے آغاز سے ہی حکومت اور بعض سیاسی شخصیات کی جانب سے شکوک و شبہات کا اظہار کیا جاتا رہا۔
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے سابق وزیرِ اعظم راجہ فاروق حیدر، مسلم لیگ (ن) کے رہنما شاہ غلام قادر، حکومت کی مذاکرتی کمیٹی میں شامل میاں عبدالوحید سمیت متعدد شخصیات نے ایکشن کمیٹی کے پیچھے کسی غیر ملکی طاقت کے ملوث ہونے کے الزامات عائد کیے۔ تاہم میاں عبدالوحید کے علاوہ کسی شخصیت نے اپنے ان بیانات کی تردید نہیں کی۔
جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے ترجمان کے مطابق افسر شاہی اور حکومتی عہدیداروں کی مراعات کے خاتمے کا مطالبہ کر کے ہم نے ان کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا ہے۔ یہ ایک طریقے سے ان افراد اور خاندانوں کے مفادات پر حملہ ہے اس لیے ایکشن کمیٹی پر الزامات لگنا فطری ہے۔
حالات کب اور کیسے خراب ہوئے؟
جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے ایک ماہ قبل 11 مئی کو لانگ مارچ اور شٹر ڈاؤن کی کال دی تھی۔ جونہی لانگ مارچ کا دن قریب آیا تو پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی حکومت نے وفاقی حکومت کو خط لکھ کر امن و امان برقرار رکھنے کے لیے پیرا ملٹری فورسز کے دستے طلب کیے۔
یہ خط سامنے آنے پر عوام نے سوشل میڈیا سخت رد عمل کا اظہار کیا۔ لانگ مارچ سے دو روز قبل پولیس نے ضلع میرپور کے شہر ڈوڈیال میں کریک ڈاؤن کر کے تحریک کے منتظمین کو گرفتار کرنا شروع کر دیا۔
اس دوران مقامی اسسٹنٹ کمشنر نے ایک بزرگ شہری کو تھپڑ مارا تو ردِ عمل میں درجنوں شہریوں نے اسسٹنٹ کمشنر پر حملہ کر کے اسے تشدد کا نشانہ بنایا اور سرکاری گاڑی کو توڑ پھوڑ کر اسے آگ لگا دی۔
اس واقعے کے بعد پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے مختلف شہروں سے سخت عوامی ردِ عمل سامنے آیا اور جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے 11 مئی کے بجائے دس مئی سے ہی شٹر ڈاؤن اور احتجاج کا اعلان کر دیا جس پر فوری عمل درآمد بھی ہو گیا۔
گیارہ مئی کو میرپور سے مظفرآباد کی طرف لانگ مارچ کا آغاز ہوا تو پولیس نے کئی مقامات پر رکاوٹیں کھڑی کر کے مارچ کے شرکا کو روکنے کی کوشش کی اور اس دوران پولیس اور مظاہرین میں تصادم بھی ہوا۔
میرپور کے قریب اسلام گڑھ کے مقام پر پولیس اور مظاہرین میں تصادم اور فائرنگ کے نتیجے میں پولیس سب انسپکٹر ہلاک اور ایک درجن کے قریب اہلکار زخمی ہوئے۔
پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ سب انسپکٹر پر مظاہرین کی طرف سے گولی چلائی گئی۔
اس روز کوٹلی ضلع میں متعدد مقامات پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم ہوا اور ایک ایس پی، ڈی ایس پی اور تحصیل دار سمیت پچاس کے قریب اہلکار و انتظامی اہلکار زخمی ہوئے جب کہ اتنی ہی تعداد میں مظاہرین کو بھی زخمی حالت میں مختلف اسپتالوں میں پہنچایا گیا۔
رینجرز کے داخلے کی کوشش پر مزاحمت
بارہ مئی کی صبح لگ بھگ ایک درجن گاڑیوں پر مشتمل رینجرز کا قافلہ کوہالہ پل سے پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں داخل ہوا تو مقامی افراد کے شدید ردِ عمل کے بعد یہ قافلہ کچھ دیر بعد واپس روانہ ہو گیا۔ اسی شام اندھیرا چھاتے ہی رینجرز دوبارہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں داخل ہوئی۔
اگلی صبح رینجرز کے ایک اور قافلے نے خیبر پختونخوا کے قصبے گڑھی حبیب اللہ سے برار کوٹ کے راستے مظفرآباد میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ اس دوران برار کوٹ میں مظاہرین اور رینجرز کے درمیان تصادم ہوا اور مظاہرین کے پتھراؤ کے بعد یہ قافلہ بھی وقتی طور پر پیچھے ہٹ گیا۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ایسا پہلی بار ہوا کہ کسی عوامی احتجاج کے دوران رینجرز کو طلب کیا گیا ہو۔ اگرچہ حکومت پیرا ملٹری فورسز کو طلب کرنے کا مقصد غیر ملکیوں اور حساس تنصیبات کی حفاظت بتاتی ہے۔
ایکشن کمیٹی کا لانگ مارچ کوہالہ کے قریب پہنچا تھا کہ وزیرِ اعظم پاکستان 23 ارب روپے کی فوری منظوری دی اور اگلے ایک گھنٹے میں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے وزیرِ اعظم چوہدری انوارالحق نے بجلی اور آٹے پر سبسڈی دینے کا اعلان کیا۔
حکومت نے آٹے کی قیمتوں میں فی من 1100 روپے کی سبسڈی دی جس کے بعد ایک من آٹے کی قیمت 3100 سے کم کر کے دو ہزار روپے فی من کر دی گئی۔ اسی طرح ایک سے 100 یونٹ تک بجلی کا نرخ تین روپے فی یونٹ چارج کرنے کا اعلان کیا گیا۔
حکومتی نوٹی فکیشن کے مطابق 100 سے 300 یونٹ کے لیے نرخ پانچ روپے اور 300 سے زائد کے لیے چھ روپے فی یونٹ مقرر کیا گیا۔ اسی طرح کمرشل ٹیرف کے لیے ایک سے 300 یونٹ کے لیے 10 روپے اور 300 سے زائد یونٹ کے لیے 15 روپے فی یونٹ کا نرخ رکھا گیا ہے۔
احتجاجی تحریک کے مطالبات کی منظوری کے بعد امکان تھا کہ معاملہ نمٹ گیا ہے لیکن مظاہرین اور رینجرز کے درمیان تصادم کا ایک افسوس ناک واقعہ پیش آیا۔
رینجرز کا وہ قافلہ جسے سوموار کی صبح مظاہرین نے واپس لوٹنے پر مجبور کر دیا تھا، وہ ایک مرتبہ پھر گڑھی حبیب اللہ سے براستہ برار کوٹ مظفرآباد میں داخل ہوا اور اس دوران رینجرز اور مظاہرین کے درمیان تصادم بھی ہوا۔
رینجرز نے مظاہرین پر آنسو گیس کی شیلنگ کی جس پر مشتعل افراد نے رینجرز کی دو گاڑیوں کو آگ لگا دی جب کہ گولیاں لگنے سے کم از کم آٹھ افراد زخمی ہوئے جن میں سے تین دورانِ علاج دم توڑ گئے۔
تین نوجوانوں کی ہلاکت کے بعد جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں نے احتجاج ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے حکومت سے نوجوانوں کی ہلاکت کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن کی تشکیل کا مطالبہ کیا ہے۔