|
کوئٹہ — پاکستان کے شہر کوئٹہ کے ریلوے اسٹیشن میں ہفتے کی صبح خودکش بم دھماکے میں جان کی بازی ہارنے والوں کے اہلِ خانہ غم سے نڈھال ہے۔
ہفتے کی صبح ہونے والے خود کش دھماکے میں 26 افراد ہلاک اور 60 زخمی ہو گئے تھے۔
ہلاک ہونے والوں میں محمد عارب اور عادی بخش بھی شامل تھے جو ہر ویک اینڈ کی طرح اس ہفتے بھی اپنا من پسند ناشتہ کرنے کوئٹہ سے 45 کلومیٹر دور کولپور جا رہے تھے۔
محمد عارب کے کزن شبیر احمد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ کولپور کے مشہور ہوٹل کا ناشتہ دونوں کو بہت پسند تھا اور وہ ہر ہفتے بذریعہ ٹرین وہاں ناشتے کے لیے جاتے تھے۔ لیکن اس ہفتے انہیں یہ ناشتہ نصیب نہیں ہوا اور وہ دھماکے میں جان کی بازی ہار گئے۔
انہوں نے بتایا کہ محمد عارب کوئٹہ کی ایک عدالت میں بطور کلرک خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ ان کا آبائی علاقہ جعفر آباد ہے اور انہوں نے پسماندگان میں بیوی اور چھ بچے چھوڑے ہیں۔
شبیر احمد کے مطابق “اس واقعے نے ہمارے پورے خاندان کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور محمد عارب کی موت سے پورا خاندان غمزدہ ہے۔”
واقعے میں ہلاک ہونے والے ضلع جعفرآباد کے رہائشی عادی بخش کے چھ بچے ہیں اور گھر میں ایک بوڑھی معذور والدہ بھی ہیں جو اپنے بیٹے کی اچانک موت سے صدمے میں ہیں۔
ذہنی امراض میں مبتلا خاتون بھی دھماکے کی نذر
کوئٹہ کی کرسچن کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی شائستہ رفیق بھی دھماکے میں جان کی بازی ہارنے والوں میں شامل ہیں۔
شائستہ رفیق کے قریبی ہمسائے نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ 50 سالہ شائستہ رفیق کوئٹہ کے علاقے نواں کی رہائشی تھیں۔
ان کے والدین کا انتقال ہو چکا تھا اور وہ ایک اسکول میں استاد کے طور پر خدمات انجام دے رہی تھیں۔ تاہم اولاد نہ ہونے کی وجہ سے اُن کی شادی ٹوٹ گئی جس کے بعد وہ ذہنی امراض میں مبتلا ہو گئیں۔
شائستہ کے ہمسائے کے مطابق اُن کے رشتہ داروں نے اُنہیں تنہا چھوڑ دیا تھا جس کے بعد وہ ریلوے اسٹیشن میں ہی دکھائی دیتی تھیں۔
اُن کے بقول اسپتال میں جب لاش کی شناخت کے لیے اسپتال انتظامیہ نے سوشل میڈیا پر پیغام جاری کیا تو اس کے باوجود بھی کوئی بھی ان کی لاش وصول کرنے نہیں آیا۔
کوئٹہ کے ایک پاسٹر ہمایوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جب ہمیں اس بات کا علم ہوا تو ہم نے اپنی طرف سے شائستہ رفیق کی تدفین کے لیے کوئٹہ کے گورا قبرستان میں انتظامات کیے۔
ان کے بقول شائستہ رفیق کے والد نواں کلی کے مقامی چرچ میں خدمت گزار تھے۔
‘دھماکے کی آواز اب بھی کانوں میں گونج رہی ہے’
ریلوے اسٹیشن بم دھماکے میں زخمی ہونے والے 13 افراد ابھی بھی کوئٹہ سول اسپتال کے ٹراما سینٹر اور دیگر وارڈز میں زیرِ علاج ہیں۔
اسپتال انتظامیہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ دھماکے کے نتیجے میں زخمی ہونے والوں کے جسم پر چھرے لگے ہیں اور بیشتر کو سر اور بازو میں چوٹیں آئی ہیں۔ زخمیوں میں دو کی حالت تشویش ناک ہے۔
ٹراما سینٹر میں زیرِ علاج زخمی ریلوے ملازم اختیار حسین نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ہفتے کی صبح جب وہ اپنی ڈیوٹی پر پہنچے، اچانک ایک زوردار دھماکہ ہوا۔
اختیار حسین کے مطابق دھماکے کے بعد ہر طرف افراتفری کا عالم تھا۔ دھماکے میں ان کے دو ساتھی جان کی بازی ہار گئے۔
بلوچستان میں نو ماہ کے دوران بدامنی کے 200 سے زائد واقعات
محکمہ داخلہ بلوچستان کے ذرائع کے مطابق رواں سال مارچ سے لے کر اب تک دہشت گردی کے 200 سے زائد واقعات رونما ہوئے ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق ان واقعات میں کم و بیش 207 افراد کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔
یہ واقعات بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ، گوادر، تربت، نوشکی، ہرنائی، مستونگ، چاغی، موسیٰ خیل، بولان، قلات، کھڈ کوچہ، لسبیلہ، دکی، پنجگور اور دیگر علاقوں میں رونما ہوئے ہیں۔
بیس مارچ کو گوادر پورٹ کمپلیکس پر ایک حملے میں آٹھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
تیرہ اپریل کو بلوچستان کے ضلع نوشکی کے قریب کوئٹہ سے ایران جانے والی قومی شاہراہ پر مسلح افراد نے ایک مسافر بس سے پنجاب سے تعلق رکھنے والے نو افراد کو اغوا کرنے کے بعد گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
رواں سال 21 جون کو بلوچستان کے ضلع ہرنائی سے 10 سیاحوں کو اغوا کیا گیا جن میں سے پانچ تاحال بازیاب نہیں ہوئے۔
تیرہ اگست کو مسلح افراد نے ڈپٹی کمشنر پنجگور ذاکر بلوچ کو مستونگ کے قریب قومی شاہراہ پر فائرنگ کر کے ہلاک کیا۔
رواں سال ہی 26 اگست کو بلوچستان کے علاقے موسیٰ خیل سمیت مختلف علاقوں میں بیک وقت حملوں میں 60 افراد مارے گئے۔
اس کے علاوہ دکی میں ایک حملے میں 20 کان کن مارے گئے جب کہ گزشتہ دنوں مستونگ میں اسکول کے قریب حملے میں طلبہ سمیت پانچ افراد ہلاک ہو گئے۔
دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ کیوں؟
تجزیہ کاروں کے مطابق، صوبے میں بدامنی کی نئی لہر کی بنیادی وجہ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کے دوسرے مرحلے کا آغاز ہے۔
کوئٹہ کے سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلیم شاہد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پاکستان میں سی پیک کے دوسرے مرحلے کا آغاز ہو چکا ہے جس سے بلوچستان میں صنعتی ترقی کے نئے امکانات پیدا ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ اس مرحلے کے آغاز کے ساتھ ہی کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کی جانب سے حملوں میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔
کراچی میں چینی باشندوں پر حالیہ حملے بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔
ان کے مطابق بلوچستان میں کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیموں نے پہلے ہی چینی باشندوں کو علاقے سے نکل جانے کی دھمکی دے رکھی ہے۔