(ویب ڈیسک)سلیکان ویلی کی سرزمین پر ایک نیا انقلاب برپا ہوا ہے! “ڈریم اسپیس” نامی ادارے نے وہ کر دکھایا، جو کبھی محض خیال کی سرحدوں تک محدود تھا۔
جی ہاں، 8 اکتوبر 2024 کو ایسا حیرت انگیز تجربہ کیا گیا جس نے خوابوں کی دنیا کو حقیقت کے قریب تر کردیا, دو خوش قسمت افراد کو خواب کی حسین وادیوں میں ایک دوسرے سے منسلک کیا گیا، اور خاص آلات کی مدد سے پہلی بار انسانوں نے خواب کی حالت میں معلومات کا تبادلہ ممکن بنادیا۔ ایک سادہ سا پیغام، جو خواب کی لہروں میں رواں تھا، ان دونوں نے ایک دوسرے کو منتقل کرکے ایک نئی دنیا کا دروازہ کھول دیا۔
کیا یہ انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کی انتہا نہیں؟ کیا یہ ممکنات کی نئی حدوں کی نشاندہی نہیں؟ “ڈریم اسپیس” نے وہ کر دکھایا جو کبھی تصور کی پرواز تک ہی محدود تھا۔
واضح خواب (Lucid Dream) کیا ہے؟
واضح خواب وہ کیفیت ہے جب کسی شخص کو یہ شعور ہوتا ہے کہ وہ خواب دیکھ رہا ہے لیکن وہ ابھی نیند کی حالت میں ہی ہے۔ یہ کیفیت گہری نیند (REM Sleep) کے دوران ہوتی ہے اور اس کے بہت سے ممکنہ فوائد ہیں، جیسے جسمانی مسائل کا حل تلاش کرنا یا نئے سیکھنے کی صلاحیتوں کو بڑھانا۔
ڈریم اسپیس کا تحقیقی کام
ڈریم اسپیس نے اپنی ابتدائی تحقیق میں ایک غیرمعمولی پیشرفت دکھائی تھی، جس میں چہرے کے پٹھوں کی برقی حرکات کو ناپنے والے سینسرز کے ذریعے خواب میں پیدا ہونے والی مخصوص آوازوں کو سمجھنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا گیا تھا۔ اس اہم تحقیق کی بنیاد پر”ڈریم اسپیس”نے ایک نئی خوابی زبان متعارف کرائی ہے، جس کا نام “ریمیو” (Remmyo) رکھا گیا ہے۔
یہ زبان خوابوں میں انسانی مواصلات کو ممکن بنانے کےلیے تیار کی گئی ہے، اور اس کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ اسے خواب کی حالت میں حساس سینسرز کی مدد سے سمجھا جاسکتا ہے۔ “ریمیو” خوابوں کی دنیا میں نئے امکانات اور مختلف نوعیت کے تجربات کے دروازے کھولنے کےلیے ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔
“ڈریم اسپیس” کے اس انقلابی قدم سے مستقبل کے خوابوں میں نہ صرف مواصلات ممکن ہوسکے گی، بلکہ خوابوں کی تشریح اور استعمال کے نئے طریقے بھی متعارف ہوں گے، جو سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں نئی راہیں کھولیں گے۔
پہلا خوابی رابطہ
24 ستمبر کی وہ رات انسانی تاریخ میں ایک نیا باب رقم کرگئی جب دو افراد نے اپنے گھروں میں خوابوں کی دنیا میں قدم رکھا، اور فاصلے کی تمام حدیں مٹادیں۔ ان کے دما غی لہروں اور نیند سے جڑے دیگر اعداد و شمار کو خاص طور پر تیار کردہ آلات کے ذریعے دور دراز سے ریکارڈ کیا جارہا تھا۔ جیسے ہی سرور نے محسوس کیا کہ پہلا فرد واضح خواب دیکھ رہا ہے، فوراً ایک رینڈم “ریمیو” لفظ تیار کیا گیا اور ایئر بڈز کے ذریعے اس کے کانوں تک پہنچا دیا گیا۔ خواب کی رنگین وادیوں میں گھومتے اس فرد نے اُس لفظ کو دہرایا، اور وہ آواز خواب سے نکل کر سرور میں محفوظ ہوگئی۔
یہ لمحہ خوابوں کی دنیا میں ایک سنگ میل تھا، مگر کہانی یہاں ختم نہ ہوئی۔ آٹھ منٹ بعد، دوسرا فرد بھی واضح خواب کی حالت میں پہنچا۔ اس نے پہلے فرد کا محفوظ کردہ پیغام سنا، اور جب بیدار ہوا تو خواب کی اس بات چیت کی تصدیق کی۔ یوں انسانیت نے خوابوں کی زبان میں اپنی پہلی گفتگو کا آغاز کیا۔
مگر اس حیرت انگیز تجربے کا دائرہ صرف دو افراد تک محدود نہیں رہا, مزید دو افراد نے بھی خوابوں کی دنیا میں سرور کے ساتھ کامیاب گفتگو کی، ثابت کرتے ہوئے کہ خواب محض ایک پراسرار تجربہ نہیں، بلکہ ایک نئی مواصلاتی دنیا کا دروازہ ہے۔
ڈریم اسپیس کے مستقبل کے منصوبے
ڈریم اسپیس کے بانی اور چیف ایگزیکٹو مائیکل راڈوگا نے اس انقلابی پیشرفت کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “کل تک، خواب میں بات چیت سائنس فکشن کی طرح لگتی تھی۔ کل یہ اتنی عام ہوجائے گی کہ ہم اس ٹیکنالوجی کے بغیر اپنی زندگی کا تصور بھی نہیں کرسکیں گے۔ یہ رابطے اور خواب کی دنیا میں تعامل کے بارے میں ہمارے طرزِ فکر کو تبدیل کرکے لامحدود تجارتی ایپلی کیشنز کا دروازہ کھولتا ہے۔ اسی لیے ہمارا خیال ہے کہ REM نیند اور اس سے جڑے واقعات، جیسے واضح خواب، مصنوعی ذہانت کے بعد اگلی بڑی صنعت بنیں گے۔”
یہ عظیم کارنامہ تقریباً پانچ سال کی انتھک تحقیق، لگن، اور ٹیکنالوجی کی ترقی کا نتیجہ ہے۔ 24 ستمبر کو جب پہلی بار واضح خواب میں بات چیت ہوئی، تو اس لمحے نے ایک نئے عہد کا آغاز کیا۔ تب سے، محققین نے ایک لمحے کی بھی فرصت لیے بغیر اپنی ٹیکنالوجی کو بہتر بنانے میں دن رات ایک کردیے، اور ہر تجربے کے ساتھ مزید حیرت انگیز نتائج سامنے آئے۔
مگر “ڈریم اسپیس” کی بلند پروازی یہیں ختم نہیں ہوتی۔ آگے بڑھتے ہوئے، ٹیم کی نگاہیں اب ایک نئے اور مشکل چیلنج پر مرکوز ہیں: واضح خوابوں میں حقیقی وقت میں بات چیت کو ممکن بنانا۔ یہ ہدف بلاشبہ پیچیدہ ہے، مگر جوش و جذبے سے معمور یہ ٹیم پُرامید ہے کہ چند ماہ میں اس خواب کو بھی حقیقت میں بدل دیا جائے گا۔ یہ خوابوں کی دنیا کا وہ نیا دروازہ ہے جس کی چابی سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے ہاتھ میں ہے۔