(24 نیوز)آئین کے آرٹیکل 7 سے آرٹیکل 40 عوام کے بنیادی حقوق کے بارے میں ہیں،یعنی آئین پاکستان انسانی حقوق کا ضامن ہے ۔ اِسی لئے عوام کے حقوق کی پامالی آئین کی خلاف ورزی تصور ہوتی ہے۔اب حکومت سوشل میڈیا پر تو پابندیاں لگا رہی ہے تاکہ نفرت انگیز مواد کو روکا جاسکے ۔اب اِس پر بھی بنیادی حقوق کے ھوالے سے بحث جاری ہے کہ حکومت سوشل میڈیا پر پابندیاں لگا کر کہیں انسانی حقوق کی خلاف ورزی تو نہیں کر رہی ۔بہرحال اب حکومت نے سرکاری ملازمین کے بغیر اجازت سوشل میڈیا کے استعمال پر بھی پابندی عائد کردی ہے۔
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے جاری آفس میمورنڈم میں کہا گیا ہے کہ سرکاری ملازمین بغیر اجازت کوئی سوشل میڈیا پلیٹ فارم استعمال نہیں کرسکتے۔میمورنڈم کے مطابق یہ فیصلہ سرکاری معلومات و دستاویزات افشاء ہونے سے روکنے کے لیےکیا گیا ہے جس میں سرکاری ملازمین کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ گورنمنٹ سرونٹس رولز 1964 کی پاسداری کریں۔ آفس میمورنڈم میں کہا گیا ہے کہ سرکاری ملازم بغیر اجازت سوشل میڈیا پر اظہارِ رائے یا بیان بازی نہیں کر سکتا، سرکاری ملازم سرکاری دستاویز اور معلومات غیر متعلقہ افراد کے ساتھ شیئر نہیں کر سکتا جب کہ سرکاری ملازمین ایسی رائے یاحقائق بیان نہیں کرسکتے جس سےحکومتی ساکھ متاثر ہو۔
ضرورپڑھیں:”ہائی جیکرز کو ہندو کیوں دکھایا؟” نیٹ فلکس نے بھارتی حکومت کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے
میمورنڈم کے مطابق ملازمین کوحکومتی پالیسی، فیصلوں، ملکی خودمختاری اور وقار کے منافی بات کی اجازت نہیں اور نا ہی ملازمین میڈیا پر ایسی بات کرسکتے ہیں جس سے دیگر ممالک سے تعلقات متاثر ہوں۔ اب ہونا تو یہ چاہئے کہ جب تک سرکاری ملازمین قانون کی خلاف ورزی نہیں کرتے تب تیک اُن کے سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی نہیں لگنی چاہئے ۔آئین سب کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے اور سرکاری مالزمین بھی اِس ملک کا حصہ ہیں ۔اور اُن کو بھی سوشل میڈیا پر معلومات جاننے کا پورا حق حاصل ہے ۔صرف اِس وجہ سے اِن کے سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی لگانا کہ وہ کوئی خلاف ورزی نہ کریں میرے خیال سے یہ مناسب عمل نہیں ۔