ناسا کا ایک خلائی جہاز سورج کے قریب ترین پہنچ کر تاریخ رقم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی کے مطابق ناسا کے سائنسدانوں کو توقع ہے کہ سورج کے انتہائی قریب پہنچنے کی کوشش کرنے والے اس خلائی جہاز سے 27 دسمبر تک ممکنہ طور پر کوئی سگنل موصول ہو سکے گا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ’پارکر سولر پروب‘ نامی یہ خلائی جہاز سورج سے خارج ہونے والے انتہائی شدید درجۂ حرارت اور بے تحاشہ تابکاری کو برداشت کرتے ہوئے سورج کی بیرونی فضا کی جانب مسلسل بڑھ رہا ہے۔
سورج کے انتہائی نزدیک شدید موسمی حالات اور درجۂ حرارت کے باعث یہ خلائی جہاز گزشتہ کئی دن سے زمین سے رابطے میں نہیں ہے۔
ناسا کے مطابق سائنسدان اس مشن کی جانب سے ملنے والے سگنل کے منتظر ہیں اور انہیں توقع ہے کہ 27 دسمبر تک انہیں ممکنہ طور پر سگنل موصول ہو سکیں گے۔
سائنسدانوں کے مطابق موصول ہونے والے سگنل سے یہ معلوم ہو سکے گا کہ یہ مشن سورج کے انتہائی قریب پہنچنے کے لیے درکار سخت ترین مراحل عبور کرنے میں کامیاب رہا ہے یا نہیں اور یہ بھی جاننے میں مدد ملے گی کہ سورج درحقیقت کیسے کام کرتا ہے۔
ناسا کے ہیڈ آف سائنس ڈیپارٹمنٹ ڈاکٹر نیکولا فوکس کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ہم صدیوں سے سورج کے بارے میں پڑھتے آ رہے ہیں لیکن آپ کسی ماحول کا اصل تجربہ اس وقت تک نہیں کر سکتے جب تک آپ وہاں خود نہ جائیں اور ہم سورج کے ماحول کا اُس وقت تک تجربہ نہیں کر سکتے جب تک ہم اس کے انتہائی قریب سے نہ گزریں۔
واضح رہے کہ اس خلائی جہاز پارکر سولر پروب کو 12 اگست 2018ء کو خلاء میں بھیجا گیا تھا اور یہ تب سے اب تک مسلسل سورج کے مرکز کے قریب بڑھ رہا ہے۔
اس تجربے میں خلائی جہاز پارکر سولر پروب کو 1400 ڈگری سینٹی گریڈ درجۂ حرارت اور شدید تابکاری کو برداشت کرنا پڑے گا جو اس میں موجود الیکٹرانکس آلات کو بھی جلا کر راکھ کر سکتی ہے۔
11.5 سینٹی میٹر موٹی کاربن کی بنی شیلڈ سے اس خلائی جہاز کو محفوظ بنایا گیا ہے اور یہ تیزی سے اندر داخل ہونے اور باہر نکلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
یہ خلائی جہاز انسانوں کی جانب سے بنائی گئی کسی بھی چیز سے زیادہ تیزی سے حرکت کرتا ہے اور اس کی رفتار 430,000 میل فی گھنٹہ ہے یعنی یہ لندن سے نیویارک تک 30 سیکنڈ سے بھی کم وقت میں پرواز کرنے کے برابر ہے۔