Thursday, December 26, 2024
ہومSportsپہلی افغان اولمپئن خاتون کا افغانستان کی اولمپکس میں شرکت پر پابندی...

پہلی افغان اولمپئن خاتون کا افغانستان کی اولمپکس میں شرکت پر پابندی کا مطالبہ


  • انٹر نیشنل اولمپک کمیٹی طالبان کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کی وجہ سے افغانستان پر اولمپکس میں شرکت پر پابندی عائدکرے، افغانستان کی پہلی خاتون اولمپئین۔ فریبا رضائی
  • انٹر نیشنل اولمپک کمیٹی یہ نہیں مانتی کہ کھیلوں سے افغان کمیونٹی کو الگ تھلگ کرنا درست لائحہ عمل ہوگا۔ عالمی کمیٹی کا ایک سابق بیان
  • طالبان انتظامیہ کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے تبصرے سے انکار کردیا۔

اولمپکس میں افغانستان کی نمائندگی کرنے والی پہلی خاتون، فریبا رضائی طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے خواتین کے ساتھ کیے جانے والے سلوک سےنالاں رہی ہیں اور اب ملک کو پیرس گیمز سے باہر رکھنے کے لیے مہم چلا رہی ہیں ۔

جوڈو کی ماہررضائی نے، جو 2004 میں ایتھنز میں منعقدہ اولمپکس میں حصہ لے چکی ہیں، انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی (IOC) سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ طالبان کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کی وجہ سے افغانستان پر اولمپک میں شرکت پر پابندی عائد کرے ۔

انہوں نے دلیل دی ہے کہ ایسی کسی پابندی کے تحت، افغان خواتین کو اب بھی آئی او سی کی پناہ گزین اولمپک ٹیم میں شرکت کی اجازت ہونی چاہیے۔

رضائی نے، جو اب وینکوور میں مقیم ہیں، خبر رساں ادارے رائٹرز کو بتایا، ” طالبان کے، خواتین اور بچوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کے بے تحاشا شواہد کے پیش نظر، وہ بہت خطرناک ہیں۔”

“اگراو آئی سی انہیں 2024 میں یورپ کے مرکز پیرس میں ہونے والے اولمپکس میں داخلے کی اجازت دیتی ہے، تو یہ لوگوں کے لیے بہت خطرناک بات ہے۔”

طالبان انتظامیہ کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس پر تبصرے سے انکار کردیا۔

رضائی کے مطالبے پر تبصرے کی درخواست پر، انٹر نیشنل اولمپک کمیٹی(آئی او سی) کے تعلقات اور اولمپک یکجہتی کے ڈائریکٹر جیمز میکلیوڈ کے گزشتہ ماہ کے ایک بیان کا حوالہ دیا۔

میکلیوڈ نے اس وقت کہا تھا کہ آئی او سی افغانستان میں، خواتین اور نوجوان لڑکیوں پر کھیلوں تک رسائی پر عائد موجودہ پابندیوں کو ختم کرنے کے مقصد سے افغانستان کی نیشنل اولمپک کمیٹی (این او سی) اور کھیل کے حکام کے ساتھ بات چیت کر رہی ہے۔ “

تاہم انہوں نے کہا تھاکہ اگرچہ آئی او سی اس بارے میں مختلف آراء کو تسلیم کرتی ہے کہ آیا افغانستان کے لئے اولمپک میں شرکت کے حوالے سے افغانستان کی نیشنل اولمپک کمیٹی ، این او سی کو معطل کیا جانا چاہیے، لیکن وہ یہ نہیں مانتی کہ اس وقت کھیلوں سے افغان کمیونٹی کو الگ تھلگ کرنا درست لائحہ عمل ہوگا۔

آئی او سی نے الگ سے کہا کہ کھلاڑیوں کو آئی او سی کی پناہ گزین اولمپک ٹیم میں شرکت کی اہلیت کےلیے پناہ گزینوں سےمتعلق اقوام متحدہ کی جانب سے تصدیق شدہ پناہ گزین حیثیت کی ضرورت ہے

سوئٹزرلینڈ میں انٹر نیشنل اولمپک کمیی کے ہیڈکوارٹرزن کے سامنے اولمپک رنگز، فوٹو رائٹرز19 مارچ 2024

رضائی کی عمر اس وقت 18 برس تھی جب انہوں نے اپنے ملک کے لیے ایک تاریخی لمحے میں ایتھنز اولمپکس میں قدم رکھا۔

انہیں یقین تھا کہ ان کا یہ اولین کردار خواتین کے حقوق کو آگے بڑھانے میں مدد کرے گا۔

انہوں نے کہا، ” مجھے واقعی یقین تھا کہ ہم یہاں سے بہرطور آگے بڑھیں گی۔”

انہوں نے کہا کہ ،”جب میں ایتھنز سے واپس آئی تو میں افغانستان میں ہی رہی اور میں افغانستان میں ہی رہنا چاہتی تھی۔ میں نے اپنی ٹریننگ جاری رکھی کیونکہ میں نے ان اہم تبدیلیوں کو دیکھا جو وہ ہر لڑکی کی زندگی میں لارہی تھیں۔”

لیکن اگست 2021 میں جب طالبان نے اقتدار پر قبضہ کر لیا تو اپنے ملک کی خواتین کو مزید حقوق حاصل کرتے ہوئے دیکھنے کی ان کی امیدیں چکنا چور ہو گئیں۔

رضائی نے کہا، “ایسا لگتا ہے کہ میں نے 2004 میں خواتین کے حقوق اور صنفی مساوات کی حمایت کے لیے جو کچھ بھی کیا، وہ سب انٹر نیشنل اولمپک کمیٹی اور طالبان اور طالبان کو برداشت کرنے والے لوگوں نےبے کارکر دیا ہے۔ ”

فروری میں، اقوام متحدہ کے ایک ماہر نےخواتین کےلیے، خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کے لیے طالبان کے عدم احترام کو “دنیا میں بے نظیر “ قرار دیا تھا اور کہا تھاکہ ان کے قبضے کے بعد سے “عورتوں اور لڑکیوں کے خلاف صنفی بنیاد پر تشدد کے واقعات میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔”

آئی او سی نے 1999 میں افغانستان کی نیشنل اولمپک کمیٹی(این او سی) کو معطل کر دیا تھا، اور ملک کو 2000 کے سڈنی گیمز میں شرکت سے روک دیا گیا تھا۔ طالبان کے زوال کے بعد، افغانستان کی اولمپک میں شرکت کو بحال کر دیا گیا اور اس وقت رضائی کو ایتھنز میں مقابلے کا موقع دستیاب ہوا۔

فریبا رضائی نے،جنہوں نے2011 میں افغانستان چھوڑ کر کینیڈا میں سکونت اختیار کیت ھی ایک غیر منافع بخش تنظیم، ویمن لیڈرز آف ٹومارو کی بنیاد رکھی، جو ایتھلیٹس سمیت افغان خواتین کے لیے وظائف اور تعلیم کے پروگرام فراہم کرتی ہے۔

38 سالہ فریبا رضائی کو اپنے کاموں پر دھمکیاں موصول ہوتی رہی ہیں۔

انہوں نے کہا، “مجھے یقین ہے کہ انسانی حقوق، خواتین کے حقوق اور خواتین کے وقار سے متعلق میرے اصول مسلح مردوں سے زیادہ مضبوط ہیں۔”

اس رپورٹ کا مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے۔



Source

RELATED ARTICLES

اپنی رائے کا اظہار کریں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

مقبول خبریں