Saturday, December 28, 2024
ہومSportsامریکہ اور کرکٹ کے بنتے نئے رشتے۔۔۔ لیجنڈ کرکٹر ظہیر عباس کی...

امریکہ اور کرکٹ کے بنتے نئے رشتے۔۔۔ لیجنڈ کرکٹر ظہیر عباس کی خصوصی تحریر


  • امریکہ نے اپنا پہلا انٹرنیشنل کرکٹ میچ 1844 میں کھیلا تھا۔
  • بریڈ مین کو کرکٹ کی تاریخ کا عظیم ترین بیٹر تسلیم کیا جاتا ہے اور انہوں نے 1932 میں امریکہ کے ٹور میں نمائشی میچز کھیلے تھے۔
  • امریکہ ورلڈ کپ کی میزبانی اور کرکٹ کو فروغ دینے کے لیے آئیڈیل نظر آتا ہے۔

امریکہ نے اپنا پہلا انٹرنیشنل کرکٹ میچ 1844 میں کینیڈا کے خلاف کھیلا تھا اور لگ بھگ 200 برس بعد امریکہ آئی سی سی مینز ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی میزبانی کر رہا ہے۔

کرکٹ کو ابتدا ہی سے امریکہ میں، بالخصوص فلاڈلفیا اور پنسلوینیا کی ریاستوں میں بہت پذیرائی ملی جہاں کالجز اور لوکل کلبز ایک دوسرے کے خلاف میچز کھیلتے آرہے ہیں۔ لیکن کرکٹ سے صدیوں پرانے رشتے کے باوجود بیس بال، امریکن فٹ بال اور باسکٹ بال کھیلوں کے دل دادہ امریکیوں کی ترجیح رہے ہیں۔

البتہ کرکٹ کی مقبولیت شاید پہلے سے بڑھی ہے اور اس کھیل میں دلچسپی کے حوالے تاریخ میں بھی ملتے ہیں۔

یہ 1959 کی بات ہے جب میں اسکول میں پڑھتا تھا، مجھے آج بھی یاد ہے کہ امریکی صدر ڈیوائٹ ڈی آئزن ہاور کراچی کے دورے پر آئے تھے اور وہاں انہوں نے پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان ہونے والا میچ دیکھا تھا۔

میں نے جب پاکستان کے لیے کھیلنا شروع کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ اس میچ کے دوران آئزن ہاور نے اپنے ہم منصب جنرل ایوب خان سے میچ دیکھتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کو بھی انگلینڈ کی طرح گراسی پچز پر کھیلنا چاہیے۔

امریکہ کے صدر آئزن ہاورآسٹریلوی کرکٹ ٹیم سے ملاقات کر رہے ہیں۔ فائل فوٹو۔

اس تجویز نے کھیل کا رُخ ہی بدل دیا کیوں کہ اس سے پہلے پاکستان میں میٹنگ وکٹس پر کرکٹ کھیلی جاتی تھی۔

میں 1980 کی دہائی میں آسٹریلیا کے ٹور پر تھا تو میں نے وہاں ایک تاریخی تصویر دیکھی جس میں لیجنڈ کرکٹر سر ڈان بریڈمین اور امریکہ میں بیس بال کے لیجنڈری کھلاڑی بیب رتھ یعنی اپنے اپنے کھیلوں کی پہچان بننے والے کھلاڑیوں کو ایک تصویر میں دیکھا تھا۔

بریڈ مین کو کرکٹ کی تاریخ کا عظیم ترین بیٹر تسلیم کیا جاتا ہے اور انہوں نے 1932 میں امریکہ کے ٹور میں کئی نمائشی میچز کھیلے تھے۔

امریکہ میں کرکٹ سے ملتے جلتے تیز رفتار کھیل باسکٹ بال اور امریکی خانہ جنگی کے دوران مقبولیت حاصل کرنے والی امریکن فٹ بال کی وجہ سے شاید جلد ہی کرکٹ کی چمک ماند پڑ گئی۔

اس دور میں کرکٹ برطانوی سلطنت کے زیرِ سایہ اس کی سابقہ نوآبادیوں آسٹریلیا، جنوبی افریقہ اور ویسٹ انڈیزی میں تیزی سے شہرت کی منزلیں طے کر رہی تھی۔

آج پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش میں کرکٹ سے جنون کی حد تک وابستگی پائی جاتی ہے اور اب تو جنگ زدہ افغانستان بھی اس صف میں شامل ہوگیا ہے۔ یہ سبھی ٹیمیں امریکہ اور ویسٹ انڈیز کی میزبانی میں ہونے والے ورلڈ کپ میں شریک ہیں۔

دنیا کے 100 سے زائد ممالک کے کلبوں کو کرکٹ کی بین الاقوامی باڈی آئی سی سی کی ممبرشپ حاصل ہے۔

امریکہ کی میزبانی میں ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کی ٹرافی۔

امریکہ کی میزبانی میں ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کی ٹرافی۔

امریکہ میں جنوبی ایشیائی کمیونٹی کی بڑھتی آبادی اور ویسٹ انڈیز اور برطانیہ جیسے کرکٹ کھیلنے والے ممالک کے لوگوں کی آمد سے گزشتہ چند دہائیوں کے دوران یہاں کرکٹ کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

انفرا اسٹرکچر پر توجہ اور اسکول اور کالج کی سطح پر کرکٹ کو فروغ دینے سے امریکہ میں اس کھیل کی پذیرائی میں مزید اضافہ کیا جاسکتا ہے۔

گزشتہ برس امریکہ میں ایک بڑی کمرشل لیگ کھیلی گئی جس میں کئی انٹرنیشنل کرکٹر شریک ہوئے تھے۔ اس لیگ نے بھی کھیل کے فروغ اور مقامی آبادی میں اس سے دلچسپی پیدا کرنے میں مدد دی ہوگی۔

پھر کرکٹ خود بھی ایک مختصر فارمیٹ میں بدل گئی ہے جو بہت تیز رفتار ہے اور میرے خیال میں امریکیوں کے مزاج سے زیادہ ہم آہنگ بھی ہے۔

ایک بیس بال میچ کی طرح ٹی ٹوئنٹی میچ مکمل ہونے میں تین سے چار گھنٹے لگتے ہیں اور امریکہ میں اسی فارمیٹ کا ورلڈ کپ ہورہا ہے۔

میں نے کرکٹ میں آنے والی کئی تبدیلیاں دیکھی ہیں۔ اس کی سفید کٹ کے رنگوں میں تبدیلی دیکھی ہے اور صرف سورج کی روشنی میں ہونے و الے کھیل کو رات کے وقت فلڈ لائٹس تک جانے کا سفر بھی دیکھا ہے۔ کرکٹ کی دنیا میں بڑی لیگز میں اب چیئر لیڈرز، اور بھاری انعامات بھی شامل ہوگئے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کے باعث معطل ہونے والے دونوں ممالک کے کرکٹ مقابلے پھر سے شروع ہونے چاہییں۔

میرے خیال میں کھیل اور سیاست کو الگ الگ رہنا چاہیے۔

مجھے آج بھی پُرجوش اور بہت ہی بڑے کراؤڈ کی موجودگی میں بھارت کے ساتھ کھیلے گئے میچز یاد ہیں۔ میں آج بھی ان یادوں کو تازہ کرکے جذباتی ہوجاتا ہوں۔

بھارتی کھلاڑی بھی اسی تجربے سے گزرتے ہوں گے۔ بھارتی کرکٹرز میں آج بھی کئی قریبی دوست ہیں جن میں سنیل گواسکر اور بھارت کو 1983 کا ورلڈ کپت جتانے والی ٹیم کے کپتان کپل دیو بھی شامل ہیں۔

امریکہ ورلڈ کپ کی میزبانی اور کرکٹ کو فروغ دینے کے لیے آئیڈیل نظر آتا ہے۔ یہاں پہلے ہی کرکٹ کے مداحوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی اسپورٹس انڈسٹریز میں سے ایک ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ میگا ایونٹس منعقد کرانے کا بہترین ریکارڈ رکھتا ہے۔

سال 2028 میں امریکہ لاس اینجلس میں سمر اولمپکس کی میزبانی کرے گا جہاں پانچ نئے متعارف کرائے جانے والے کھیلوں میں کرکٹ بھی شامل ہے۔ آخری مرتبہ کرکٹ کو سن 1900 میں اولمپکس کا حصہ بنایا گیا تھا جس میں برطانیہ نے فرانس کو شکست دی تھی۔

میں امریکہ میں کرکٹ کا مستقبل روشن دیکھتا ہوں کیوں کہ یہ سرزمین رنگا رنگی اور تنوع کو ویسے بھی کھلے دل سے قبول کرتی ہے۔ 1994 میں امریکہ نے فیفا سوکر ورلڈ کپ کی میزبانی کی تھی اور اس کے بعد سے امریکہ میں اس کھیل کی مقبولیت کو عروج ملنا شروع ہوا۔ امریکہ کی ویمن ٹیم متعدد فیفا ورلڈ کپ ٹائٹلز اپنے نام کرچکی ہے۔

میں امید کرتا ہوں کہ کرکٹ ورلڈ کپ کی میزبانی سے امریکہ میں کرکٹ کی مقبولیت بڑھے گی اور امریکہ کے اس کھیل سے بننے والا نیا رشتہ مزید مضبوط ہوگا۔



Source

RELATED ARTICLES

اپنی رائے کا اظہار کریں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

مقبول خبریں