|
امریکہ یکم جون کو پہلی بار کسی بڑے کرکٹ ٹورنامنٹ کی مشترکہ میزبانی کر کے ایک نئی تاریخ رقم کرے گا۔
امریکہ اور کینیڈا کے درمیان یکم جون کو ریاست ٹیکساس کے شہر ڈیلس میں ورلڈ کپ کا افتتاحی میچ کھیلا جائے گا جس کے بعد ایک ماہ طویل اس میگا ایونٹ کا باقاعدہ آغاز ہو جائے گا۔ امریکہ کے ساتھ ویسٹ انڈیز اس ایونٹ کی مشترکہ میزبانی کرے گا۔
ورلڈ کپ کی مشترکہ میزبانی کے لیے امریکہ کے انتخاب نے بہت سے لوگوں کو حیران کیا تھا کیوں کہ امریکہ میں مقیم تارکینِ وطن کے علاوہ امریکیوں کو اس کھیل سے دلچسپی نہیں ہے۔
کرکٹ جو 17ویں صدی میں انگریزوں نے ایجاد کی تھی، اپنی سابقہ کالونیوں، کیریبئن، جنوبی ایشیا اور آسٹریلیا میں زیادہ مقبول ہے۔
کھیل میں مزید پیسہ لانے کی کوشش
امریکہ کو شریک میزبان کے طور پر منتخب کرنے کے فیصلے کو بعض افراد اس کھیل میں مزید پیسہ لانے کی کوشش قرار دیتے ہیں۔ شمالی امریکہ کو دنیا کی سب سے بڑی کھیلوں کی مارکیٹ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
مبصرین کے مطابق انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کا مقصد کھیلوں کی اس بڑی مارکیٹ میں داخل ہونا ہے جو ‘اسٹیٹسٹا’ کے ایک اندازے کے مطابق 83 ارب ڈالر کی مارکیٹ ہے۔
‘یہ بڑی کامیابی ہو گی’
انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے ہیڈ آف ایونٹس کرس ٹیٹلی نے خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “حقیقت یہ ہے کہ کرکٹ ورلڈ کپ امریکہ میں اس لیے آیا ہے کیوں کہ یہاں کرکٹ میں دلچسپی لی جا رہی ہے۔”
آئی سی سی نے امریکہ میں کرکٹ کو فروغ دینے کے لیے ویسٹ انڈیز کے سابق فاسٹ بالر کرٹلی ایمبروز جیسے بڑے کھلاڑیوں کی خدمات حاصل کی ہیں۔ ایمبروز 2011 میں آئی سی سی ہال آف فیم میں بھی شامل تھے۔
ایمبروز کا کہنا ہے کہ امریکہ میں اس ورلڈ کپ کا انعقاد بڑی کامیابی ہو گی۔
نیو یارک میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کرٹلی ایمبروز کا کہنا تھا کہ “امریکہ میں کرکٹ خصوصاً ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ زیادہ مقبول ہو گا۔ کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ امریکی چاہتے ہیں کہ ہر چیز جلد ختم ہو جائے۔”
واضح رہے کہ ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ کا میچ زیادہ سے زیادہ چار گھنٹے میں ختم ہو جاتا ہے جب کہ گراؤنڈ میں میوزک، چیئر لیڈرز سمیت تفریح کے دیگر مواقع کے سبب یہ فارمیٹ حالیہ عرصے میں تیزی سے مقبول ہوا ہے۔
آئی سی سی کی جانب سے امریکہ کو مشترکہ میزبان بنانے کے فیصلے میں 2028 کے لاس اینجلس اولمپکس کا طویل المدتی منصوبہ بھی شامل تھا جہاں کرکٹ پانچ نئے کھیلوں میں شامل ہے جو اس ایونٹ کا حصہ ہوں گے۔
کرس ٹیٹلی کا کہنا تھا کہ کرکٹ ورلڈ کپ اور پھر سن 2028 کے لاس اینجلس اولمپکس میں کرکٹ کی شمولیت سے امریکہ میں اس کھیل کی مقبولیت بڑھے گی۔
امریکہ میں مقیم پاکستانی، بھارتی، سری لنکن، بنگلہ دیشی اور افغانستان سے تعلق رکھنے والی کمیونٹی بھی آئی سی سی کو یہ یقین دلاتی رہی ہیں کہ کرکٹ کو یہاں لانا ایک کامیابی ہو گی۔
ٹیٹلی کے مطابق امریکہ میں مقیم ان کمیونٹیز کے لگ بھگ 60 لاکھ افراد پہلے ہی اس کھیل کو پسند کرتے ہیں۔ اس ایونٹ میں جو 20 ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں، ان میں بھی ان کمیونٹیز سے تعلق رکھنے والے کچھ کھلاڑی شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ٹکٹوں کی تیزی سے فروخت سے بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ یہاں اس کھیل کو پسند کرنے والے بڑی تعداد میں موجود ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے 9 جون کو نیویارک میں شیڈول میچ کو بھی ایک مثال کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے جس کی ٹکٹوں کی فروخت کا عمل چند گھنٹوں میں ہی مکمل ہو گیا تھا۔
بعض ماہرین 1994 میں امریکہ میں ہونے والے فٹ بال ورلڈ کپ کی بھی مثال دیتے ہیں جس کے بعد فٹ بال کے کھیل کو امریکہ میں تیزی سے مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔ لہذٰا یہ اُمید کی جا رہی ہے کہ کرکٹ ورلڈ کپ کے انعقاد سے یہ کھیل بھی امریکہ میں مقبول ہو گا۔
یہ خبر وائس آف امریکہ کی بنگلہ سروس سے لی گئی ہے۔