Sunday, December 29, 2024
ہومSportsمسلسل شکست، پاکستان ٹیم کے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟

مسلسل شکست، پاکستان ٹیم کے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟



گزشتہ برس کرکٹ ورلڈ کپ میں مایوس کن کارکردگی کے بعد پاکستان ٹیم کی مسلسل آؤٹ آف فارم پرفارمنس پر شائقین حیران ہیں۔ ماہرین نے بھی رواں برس ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ سے قبل گرین شرٹس کی کارکرگی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

شاہین شاہ آفریدی کی قیادت میں پاکستان ٹیم اس وقت نیوزی لینڈ میں موجود ہے جہاں وہ پانچ ٹی ٹوئنٹی میچز پر مشتمل سیریز کھیل رہی ہے۔

سیریز کے ابتدائی تینوں میچز میں پاکستان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور چوتھا میچ جمعے کو کرائسٹ چرچ میں کھیلا جائے گا۔

سیریز کے پہلے تینوں میچز میں بالرز کے ساتھ ساتھ بلے بازوں کی کارکردگی بھی مایوس کن رہی۔ حال ہی میں کپتانی سے سبکدوش ہونے والے بابر اعظم کے سوا کوئی بھی بلے باز سیریز میں نہیں چل سکا، سابق کپتان نے تینوں اننگز میں نصف سینچریاں بناکر فارم میں واپس آنے کا ثبوت دیا۔

نیوزی لینڈ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز کے ابتدائی تین میچز میں پاکستان نے کئی تجربات کیے ہیں۔ بابر اعظم کو اوپننگ پوزیشن سے ہٹا کر ان کی جگہ صائم ایوب کو بطور اوپنر منتخب کیا گیا، لیکن پہلے میچ میں نو لک شاٹ سے سب سے داد سمیٹنے کے باوجود وہ تین میچز میں صرف 38 رنز ہی اسکور کر سکے ہیں۔

مڈل آرڈر میں بیٹنگ کرنے والے افتخار احمد اور اعظم خان بھی سیریز میں کوئی بڑی اننگز نہیں کھیل سکے ہیں، دونوں نے بالترتیب سات اور نو رنز فی اننگز کی اوسط سے رنز اسکور کیے ہیں۔

ٹیم کے نائب کپتان محمد رضوان اس سیریز میں بطور اوپنر کھیل رہے ہیں لیکن تین میچز میں 56 رنز کی کارکردگی سے ان کے مداح بھی خوش نہیں۔

کرکٹ مبصرین کو جس بات پر سب سے زیادہ تشویش ہے وہ کپتان شاہین شاہ آفریدی اور حارث رؤف کی بالنگ فارم ہے، دونوں نے بالترتیب چار اور سات وکٹیں تو حاصل کی ہیں لیکن رنز روکنے سے قاصر رہے۔

کسی کے خیال میں شاہین آفریدی کی رفتار کم ہونے سے ان کی بالنگ بے اثر ہوگئی ہے تو کسی نے حارث رؤف کی مسلسل ناقص کارکردگی پر سوال اٹھایا ہے۔

اسکواڈ میں کوالٹی اسپنر کا فقدان اور فیلڈرز کی بدستور کیچز گرانے کی عادت کو بھی ماہرین نے پاکستان کی شکست کی بڑی وجہ قرار دیا ہے۔

سابق کرکٹرز پاکستان ٹیم کی حالیہ کارکردگی سے زیادہ خوش نہیں۔ سابق کپتان اور کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین رمیز راجہ نے سوشل میڈیا کے ذریعے پاکستانی بالرز پر سخت تنقید کی۔

تیسرے میچ میں شکست کے بعد سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر انہوں نے کہا کہ ایک ایسے سال میں جب ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کھیلا جانا ہے، ٹیم کی کارکردگی سے لے کر انتظامی امور تک سب کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔

سابق کپتان راشد لطیف نے بھی پاکستان ٹیم کی کارکردگی پر رائے دیتے ہوئے کہا کہ نیوزی لینڈ کے خلاف بیٹنگ اور بالنگ کے نہ چلنے کے پیچھے بہت سے عوامل کار فرما ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ٹیم مینجمنٹ کھیلنے کے طریقے کو یکسر بدلنا چاہ رہی ہے جس کی وجہ سے بلے باز ہوا میں زیادہ نہیں کھیل سکتے، اور جب کھیلتے ہیں تو وکٹیں بھی گنوا دیتے ہیں۔

راشد لطیف کے خیال میں پہلی ہی گیند سے تیز کھیلنے کی کوشش نے بلے بازوں کو ذہنی طور پر مفلوج کر دیا ہے اور پاور پلے میں دو وکٹیں گر جانا سب سے بڑی کمزوری ہے۔

بیٹنگ کی خامیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ ٹیم مینجمنٹ نے اوپنرز اس لیے تبدیل کیے کیوں کہ دونوں تیز نہیں کھیل پارہے تھے، لیکن اگر ڈیٹا کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مسئلہ نمبر تین اور نمبر چھ پر ہے۔

ان کے مطابق 2021 سے نمبر تین پر اسٹرائیک ریٹ تقریباً 115 کا رہا ہے اور نمبر چھ پر 110، جو قطعی ٹی ٹوئنٹی کے لحاظ سے اچھا نہیں، بجائے اس کو ٹھیک کرنے کے، مینجمنٹ نے اوپنرز کی کامیاب جوڑی کو ہی الگ کر دیا۔

آل راؤنڈر افتخار احمد کے بارے میں بات کرتے ہوئے راشد لطیف کا کہنا تھا کہ اس سیریز میں ایک مختلف افتخار احمد نظر آرہا ہے، پہلے کہا جاتا تھا کہ بابر اعظم اور محمد رضوان کی وجہ سے انہیں گیندیں کم ملتی ہیں لیکن یہاں گیندیں ملنے کے باوجود وہ اسکور کر نہیں پا رہے۔

انہوں نے افتخار کو خوش دل شاہ اور آصف علی کے لیول کا بلے باز قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہیں بھی آخری اوورز میں بھیجنا چاہیے کیوں کہ ان کی حالیہ فارم سے یہی لگتا ہے جیسے وہ چار اوور سے زیادہ وکٹ پر نہیں ٹھہر سکتے۔

‘بیٹنگ سے زیادہ قصور بالنگ کا ہے’

پاکستان ٹیم کے سابق کپتان اور آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی جیتنے والی ٹیم کے رکن اظہر علی کی رائے میں مسئلہ پاکستان کی بالنگ کا ہے، جس کی وجہ سے سیریز کے تینوں میچز میں گرین شرٹس کو شکست ہوئی۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نیوزی لینڈ ہوم کنڈیشنز سے بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے لیکن پاکستان کی بالنگ بہت زیادہ اسٹرگل کر رہی ہے۔

وہ سمجھتے ہیں کہ شاہین شاہ آفریدی اور حارث رؤف کے نیوزی لینڈ کی وکٹوں پر نہ چلنے کی وجہ سے پاکستان کے خلاف تمام میچز میں بڑا اسکور ہوا ہے۔

ان کے بقول، ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں جب بھی 200 سے زائد کا اسکور ہوتا ہے تو اس کا تعاقب کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اسکوربورڈ پر رنز ہوجائیں تو اس سے بیٹنگ پر دباؤ بڑھتا ہے، اور یہی پاکستان ٹیم کے ساتھ ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کسی بھی پلان کے چلنے کے لیے ضروری ہے کہ کنڈیشنز کو جانچ کر اور مخالف ٹیم کو دیکھ کر اسے بنایا جائے، نیوزی لینڈ کو تینوں میچ جیتنے کا کریڈٹ دینا ہوگا، جس نے جو پلان بنایا، اس پر عمل بھی کیا۔

تیسرے میچ میں سینچری اسکور کرنے والے کیوی اوپنر فن ایلن کی مثال دیتے ہوئے اظہر علی نے کہا کہ ایلن نے تمام میچز میں ٹیم کو اچھا اسٹارٹ دیا جس سے بعد میں آنے والے بلے بازوں نے فائدہ اٹھایا۔

انہوں نے ٹیم کو مشورہ دیا کہ کپتان کو چاہیے کہ ٹاس جیتنے کی صورت میں پہلے بیٹنگ کریں تاکہ بلے باز اچھا ٹارگٹ سیٹ کریں، جس کا دفاع کر کے بالرز ناکامیوں کے سلسلے کو بریک لگا سکیں۔

سابق کپتان راشد لطیف نے بھی بالرز کو اس سیریز میں شکست کا ذمہ دار قرار دیا ہے، نئے کپتان شاہین شاہ آفریدی کی بالنگ اسپیڈ کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کپتانی کے بعد سے وہ اچھی بالنگ نہیں کر پارہے ہیں، جس کی وجہ ان کو بہت جلد اہم ذمہ داری دینا بھی ہوسکتی ہے۔

ان کے خیال میں جب پچاس اوورز کے ورلڈ کپ میں حارث رؤف اور اُسامہ میر نہیں چل سکے تھے تو ان سے ٹی ٹوئنٹی میں امید لگانا ان کے ساتھ زیادتی تھی۔



Source

RELATED ARTICLES

اپنی رائے کا اظہار کریں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

مقبول خبریں